سرینگر(مانیٹرنگ ڈیسک)مقبوضہ کشمیرمیں بھارت اپناناجائزقبضہ برقراررکھنے کےلئے آئے روزکوئی نہ کوئی ظلم کی بڑی داستان رقم کررہاہے ،اسی طرح کاایک واقعہ اورپیش آیاہے کہ بھارت فوج نے مقبوضہ کشمیرمیں حملوں سے بچنے کےلئے ڈھال کے طورپرایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھاجس پربھارتی فوج اوربھارتی حکومت کوشدیدتنقید کانشانہ بنایاجارہاہےکہ بھارتی فوجی ا فسرنے سفاکی ایک داستان رقم کی ہے ۔
اورمقبوضہ کشمیر میں نوجوان کو جیپ کے آگے باندھنے والے بھارتی فوجی افسر کے معاملے پر ہرباضمیر شخص نے افسوس کا اظہار کیا مگر بھارتی تعصب کی عینک پہننے والے ایسے معاملات میں بھی خود کو حق بجانب سمجھتے ہیںاوران پرتنقید کرنے والوں کوغلط قراردیتے ہیں ۔اس کی تازہ مثال بھارتی اداکار اور حکمران جماعت بی جے پی کے رہنمااو رکن پارلیمنٹ پاریش راول کی ایک ٹویٹ ہے جو انہوں نے بھارتی مصنفہ اور سماجی کارکن ارون دھتی رائے سے متعلق کی۔ بی جے پی کے رہنما پاریش راول تمام حدیں پار کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ سیکولرانڈیا میں سب کو آزادی رائے کا حق حاصل ہے۔ پاریش راول نہ سہی مگر ابھی باشعور بھارتیوں کا ضمیر زندہ ہے جنہوں نے اسکے خلاف بھرپور آواز اٹھائی اور کچھ ایسے بھی ہیں جو انتہا پسند سوچ کے حامی اور پاریش راول کی حمایت کرنے والے ہی ہیں۔اپنی ٹویٹ میں حکمران جماعت بی جے پی کے رہنما پاریش راول نے لکھا تھا کہ ’’آرمی جیپ پر پتھر پھیکنے والوں کو باندھنے کے بجائے ارون دھتی رائے کو باندھنا چاہیے ‘‘۔ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق محال ہی میں بھارتی مصبنفہ اور سماجی کارکن ارون دھتی رائے نے اس واقعے کے بعد کہا تھا کہ بھارت، کشمیر میں 70 لاکھ فوجی بھی تعینات کر دے تب بھی اپنا ہدف نہیں پا سکتا۔پاریش راول کی اس ٹویٹ کے بعد ٹوئٹر پر طوفان کھڑا ہو گیا۔
بھارتی صحافی پرینکا بورپجاری نے کہا کہ فلموں میں اپنے کردار میں جان ڈالنے کیلئے میں آپ کے فن کی قائل ہوں۔ لیکن آپ کے پرتشدد الفاظ سے حیران ہوں، کیا آپ جانتے ہیں کہ اس ٹویٹ کے ذریعے تشدد بھڑکانے پر آپ کو جیل ہو سکتی ہے۔کسی کیلئے یہاں بھی یہ معاملہ شہرت کا ہی ہے۔ لکھتی ہیں کہ پاریش راول نے ارون دھتی رائے کو ان کی کتاب آنے سے ایک دن پہلے مشہور کر دیا ہے۔واضح رہے کہ بھارتی فوج کے میجر گوگوئی نے 9اپریل کو سرینگر میں ایک کشمیری شخص کو فوجی جیپ سے باندھ کر وادی میں گھمایا تھا۔