ہفتہ‬‮ ، 16 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

اسد امانت علی کو بچھڑے8 برس بیت گئے

datetime 8  اپریل‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(نیوز ڈیسک)وہ صرف دس سال کا تھا جب اس کی گائی ہوئی ایک ٹھمری کو اس کے دادا کے پہلے میوزک البم کا حصہ بنا لیا گیا۔ تیرہ سال کا ہوا تو اس کے باپ نے مشورہ دے ڈالا کہ بیٹا ریاض کم کیا کرو، دل پر بوجھ بڑھتا ہے۔ پندرہ سال کا تھا جب اس کے چچا نے دعویٰ کیا کہ یہ ہمارے خاندان کا نام روشن کرے گا۔ انیس سال کا تھا جب اس کے باپ کا انتقال ہوا، باپ کے انتقال کے بعد پی ٹی وی پر آیا تو اسی کے ایک گیت کو یوں گایا کہ سب کہہ اٹھے وہ مرا نہیں، اپنے بیٹے کے روپ میں پھر سے زندہ ہو گیا ہے۔
یہ تھا اسد امانت علی، پٹیالہ گھرانے کا سب سے روشن ستارہ، استاد علی بخش کا پوتا، استاد امانت علی کا بیٹا اور فتح علی خان کا بھتیجا، جس نے موسیقی کی دنیا میں یہ ثابت کیا کہ لے اور تال کی خوبصورتی الفاظ کی محتاج نہیں۔
آج اسد امانت علی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے آٹھ برس ہوتے ہیں لیکن ان کی گائی ہوئی ٹھمریاں اور خیال موسیقی کے چاہنے والوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
دنیا آج لتا منگیشکر کو جانتی ہے لیکن یہ نہیں جانتی کہ لتا منگیشکر کے پہلے استاد اسد کے والد امانت علی خان تھے۔ پاکستان کے قیام سے قبل ہی استاد امانت علی واپس لاہور منتقل ہو گئے اور شادی کر لی۔ لاہور میں ہی انیس سو پچپن کو اسد امانت علی کا جنم ہوا۔ موسیقی میں پور پور ڈوبے باپ نے کہا کہ میرا بیٹا پائلٹ بنے گا، بیٹا پائلٹ تو نہ بنا لیکن بڑے ہو کر یہ ضرور اقرار کیا کہ اگر وہ گائیک نہ ہوتا تو پائلٹ ہوتا۔ عمر ابھی چار سال بھی نہیں ہوئی تھی جب کن رس اسد کی ننھی انگلیوں نے ہارمونیم کا پہلا تار چھیڑا۔ اس کے ساتھ ہی موسیقی سے جو رشتہ پیدا ہوا وہ ساری زندگی اور گہرا ہوتا رہا۔ اسد کی پیدائش ہوئی تو استاد امانت علی دنیا بھر میں کلاسیکی موسیقی کے سب سے مقبول گائیک تھے لیکن مالی حالات ایسے تھے کہ وہ بیٹے کو بھی گائیک کی بجائے پائلٹ دیکھنا چاہتے تھے۔ اسد کے چچا استاد فتح علی خان اور حامد علی خان نے بھائی کی مخالفت کی اور اسد کو موسیقی کی تعلیم دینا شروع کی۔ شفیق باپ نے اسد کا شوق دیکھا تو اپنی شاگردی میں لے لیا لیکن ساتھ ساتھ یہ ڈر بھی حاوی رہا کہ زیادہ ریاض اسد کے ننھے دل کے تاروں کو اس شدت سے نہ چھیڑ دے کہ زندگی کے سر بکھر جائیں، بار بار اسد کو روکا بھی لیکن جو قسمت میں لکھا تھا وہ ہو کے رہا۔
استاد امانت علی کی گائی ایک غزل انشا جی اٹھو بہت مقبول ہوئی، ان کا انتقال ہوا تو کچھ عرصے بعد پی ٹی وی پر اسد امانت علی کو ابن انشا کی یہی غزل گانے کا موقع ملا۔ سننے والوں نے کہا اسد اور اس کے باپ میں کوئی فرق نہیں، دیکھنے والوں نے بتایا کہ محفل میں کون تھا جس کی آنکھ پرنم نہیں تھی۔ یہ غزل ابن انشا نے اپنی بیماری کے دنوں میں لکھی تھی، اس کے کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ استاد امانت علی نے اسے گا کر شہر بخشی تو ہر محفل میں اسد امانت علی نے اس غزل کو دوام بخشا۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ یہ اسد امانت علی کی زندگی کی گائی آخری غزل بھی ثابت ہوئی۔
اسی کی دہائی میں اسد امانت علی نے عمراں لنھگیاں پباں بھار گایا اور ایسا گایا کہ اس کے بعد ان کی گائی اور کوئی چیز اتنی مقبولیت حاصل نہ کر پائی۔ اگلی دو دہائیوں تک وہ کلاسیکی موسیقی کی دنیا پر راج کرتے رہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے سر نکھرتے گئے، لے اور پرسوز ہوتی گئی۔ چچا حامد علی خان کے ساتھ مل کر سنگت بنائی اور ایسی سنگت بنائی کہ سننے والے امات علی اور فتح علی کی سنگت کو بھول گئے۔ اسد امانت علی کے گلے سے جب لے نکلتی تو تال دیتے طلبچی کی انگلیاں تھک جاتی لیکن گلے سے نکلتی لے میں ہر سر پہلے سے منفرد اور پرسوز ہوتا۔ طبلہ بجانے والے ہار جاتے اور محفل برخاست ہو جاتی۔
پھر ایسا دور بھی آیا جب اسد امانت علی نے بڑی دعویٰ کر دیا، مہدی حسن کو اچھا گلوکار تو کہا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ ڈالا کہ وہ اچھے گائیک نہیں ہیں، گائیک اور گلوکار میں کیا فرق تھا وہ اسے کبھی سمجھا نہ پائے۔ اس بیان پر تنقید ہوئی، مخالفت بڑھی تو اسد نے محفلوں میں جانا کم کر دیا۔ ریاض کی شدت میں کمی نہیں آئی تھی۔ پاپ موسیقی سے پہلے ہی دلبرداشتہ تھا، سننے والوں کا رویہ بھی اچھا نہ رہا، نتیجہ یہ ہوا کہ دل کے تار چھڑ گئے، زندگی کے سر بکھرنے لگے، علاج کیلئے لندن گئے، کچھ عرصے بعد واپس پہنچ کر پرائیڈ آف پرفارمنس وصول کیا اور پھر لندن چل گئے۔ 8اپریل کو لندن میں اپنی فیملی کے ساتھ موجود تھے کہ دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا، ہاسپٹل پہنچنے سے قبل ہی یہ فنکار دنیا چھوڑ گیا۔ آج اسد امانت علی کی آٹھویں برسی ہے۔



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…