ہفتہ‬‮ ، 12 اکتوبر‬‮ 2024 

سائنسدانوں کا کرونا وائرس کے اسپائک پروٹین سمیت مختلف حصوں کا تجزیہ، کرونا کہاں سے آیا؟ نئی تحقیق نے سارے راز کھول دیے

datetime 19  مارچ‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) نئے نوول کورونا وائرس کے حوالے سے یہ شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ لیبارٹری میں تیار کردہ وائرس ہے جسے چین کے ووہان شہر میں بذریعہ ڈاک یا پھر کسی اور ذریعہ سے پھیلایا گیا ہے۔سائنسدانوں کی تحقیق نے اس طرح کے خیالات کو مسترد کردیا ہے۔نئے کورونا وائرس اور متعلق وائرسز کے جینوم سیکونس ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد سائنسدانوں نے کہا کہ یہ وائرس قدرتی ارتقا کا نتیجہ ہے۔

ایک میگزین نیچرمیڈیسن کی تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی متعدد اقسام کے دستیاب جینوم سیکوینس کا موازنہ کرنے کے بعد ہم واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ کورونا وائرس قدرتی عمل کا نتیجہ ہے۔اس تحقیق میں امریکہ کے اسکریپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی، ایڈنبرگ یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی اور تولین یونیورسٹی کے سائنسدان شامل تھے۔سکریپس میں امیونولوجی اور مائکرو بایولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اس تحقیق کے مصنف، کرسٹیئن اینڈرسن نے کہاکہ معروف کورونواس کے لئے دستیاب جینوم تسلسل کے اعداد و شمار کا موازنہ کرکے، ہم پختہ طور پر اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ یہ قدرتی عمل سے شروع ہوا ہے۔کورونا وائرس جراثیموں کے ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو مختلف نوعیت کے امراض کا باعث بنتے ہیں اور اس حوالے سے سب سے پہلا کورونا وائرس 2003 میں نمودار ہونے والا سارس تھا جس سے چین میں وبا کا آغاز ہوا تھا۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق اس نسل کے وائرس سے دوسری بڑی وبا 2012 میں مرس وائرس تھی جو سعودی عرب میں پھیلنا شرع ہوئی تھی۔گزشتہ برس 31 دسمبر کو چینی حکام نے عالمی ادارہ صحت کو نوول کورونا وائرس کی وبا سے آگاہ کیا تھا جسے 20 فروری 2020 کو سارس کوو 2 کا نام دیا گیا جبکہ اس سے ہونے والی بیماری کو کووڈ 19 کا نام دیا گیا۔اب تک اس وائرس سے دنیا بھر میں 2 لاکھ سے زائد افراد متاثر جبکہ 8 ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

پاکستان کی ایک ماہر پروفیسر عظمی خورشید نے بتایا کہ وبا کے پھیلنے کے ساتھ ہی چینی سائنسدانوں نے اس وائرس کے جینوم کا سیکوینس تیار کرلیا تھا اور ڈیٹا کو دنیا بھر سے شیئر کیا۔اس نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے متعدد تحقیقی اداروں کے اشتراک کے ساتھ اس سیکونس ڈیٹا کی کھوج سے اس کی بنیاد اور ارتقا کو جاننے کی کوشش کی۔سائنسدانوں نے وائرس کے اسپائک پروٹین سمیت مختلف حصوں کا تجزیہ کیا اور دریافت کیا کہ اسپائیک پروٹینز میں

موجود آر بی ڈی پورشن انسانی خلیات کے باہر موجود ریسیپٹر ایس 2 کو موثر طریقے سے ہدف بناتا ہے۔اسپائیک پروٹین اتنے موثر طریقے سے انسانی خلیات کو جکڑتے ہیں کہ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ قدرتی نتیجہ تو ہوسکتا ہے انسانوں کے ہاتھوں جینیاتی تدوین کا نہیں۔اس وائرس کے قدرتی ہونے کا ثبوت اس کا مجموعی مالیکولر اسٹرکچر ہے، اگر کوئی ایک کورونا وائرس کو جینیاتی طور پر بدلے، تو وہ اس کی ریڑھ کی ہڈی کو تعمیر کرے گا جو وائرس کی جانب سے امراض پھیلانے کا ذریعہ ہے، مگر اس نئے وائرس میں ریڑھ کی ہڈی کی ساخت چمگادڑوں اور پینگولین میں پائے جانے والے وائرسز سے ملتی جلتی ہے۔

موضوعات:



کالم



ڈنگ ٹپائو


بارش ہوئی اور بارش کے تیسرے دن امیر تیمور کے ذاتی…

کوفتوں کی پلیٹ

اللہ تعالیٰ کا سسٹم مجھے آنٹی صغریٰ نے سمجھایا…

ہماری آنکھیں کب کھلیں گے

یہ دو مختلف واقعات ہیں لیکن یہ دونوں کہیں نہ کہیں…

ہرقیمت پر

اگرتلہ بھارت کی پہاڑی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت…

خوشحالی کے چھ اصول

وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…