واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک) گزشتہ روز امریکا میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں جہاں کئی ریکارڈ قائم ہوئے وہیں کئی سائنس دان بھی انتخاب جیت کر کانگریس کا حصہ بننے جارہے ہیں۔ اگلے برس جنوری سے اپنی مدت کا آغاز کرنے والی 116 ویں امریکی کانگریس کو تاریخ کی متنوع ترین کانگریس قرار دیا جارہا ہے۔ اس میں امریکی تاریخ کی سب سے زیادہ 123 خواتین نمائندگان شامل ہوں گی۔
جن میں پہلی مسلمان خاتون، پہلی صومالی نژاد امریکی خاتون اور پہلی مقامی امریکی خاتون بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس بار کانگریس میں 8 سائنسدان بھی شامل ہوں گے جن میں سے ایک سینیٹ اور 7 ایوان نمائندگان میں موجود ہوں گے۔ اس سے قبل گزشتہ کانگریس میں ایک طبیعات داں، ایک مائیکرو بائیولوجسٹ، ایک کیمیا داں، 8 انجینیئرز، اور ایک ریاضی داں شامل تھے۔ گزشتہ کانگریس میں زیادہ تعداد طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تھی جن میں 3 نرسز اور 15 ڈاکٹرز اس کا حصہ تھے۔ رواں انتخابات میں گزشتہ کانگریس سے زیادہ سائنسدان کانگریس کا حصہ بننے جارہے ہیں جن کی تعداد 8 ہے۔ ان سائنسدانوں نے اپنی انتخابی مہم ایک غیر سیاسی تنظیم 314 ایکشن کے تعاون سے لڑی ہے۔ سنہ 2016 میں شروع کی جانے والی یہ تنظیم سائنس کے فروغ کے لیے کوشاں ہے اور سائنس کے طالب علموں کی تعلیم، تربیت اور ان کے منصوبوں کے لیے فنڈنگ مہیا کرتی ہے۔ 314 ایکشن کمیٹی کی صدر شانزی ناٹن کا کہنا ہے کہ سائنسدان دراصل مسائل کو حل کرنے والے ہوتے ہیں لہٰذا زیادہ سے زیادہ سائنسدانوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرنا چاہیئے۔ ‘ان سے بہتر بھلا مشکل مسائل کا حل کون جان سکتا ہے‘؟ رواں برس فاتح امیدواروں میں کمپیوٹر پروگرامر جیکی روزن، انڈسٹریل انجینیئر کرسی ہولن، اوشین سائنٹسٹ جو کنگھم، بائیو کیمیکل انجینیئر سین کیسٹن، نیوکلیئر انجینیئر ایلینا لوریا، ماہر امراض اطفال کم شائرر اور نرس لورین انڈر ووڈ شامل ہیں۔ مذکورہ بالا تمام امیدواروں کا تعلق ڈیمو کریٹ پارٹی سے ہے۔ اس کمیٹی کے تعاون سے الیکشن لڑنے والے ری پبلکنز کے واحد سائنسدان کیون ہرن ہیں جو ایرو اسپیس انجینئر ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز کے وسط مدتی انتخابات میں سینیٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ری پبلکن کو برتری حاصل ہوئی جبکہ ایوان نمائندگان ان کی مخالف پارٹی ڈیمو کریٹس کے نام رہا۔