امریکا(مانیٹرنگ ڈیسک)اگر تو آپ اینڈرائیڈ اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں تو بری خبر یہ ہے کہ گوگل اس ڈیوائس سے آپ کے بارے میں توقعات سے بھی زیادہ ڈیٹا اکھٹا کرتا ہے۔ یہ دعویٰ ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا۔ امریکا کی Vanderbilt University کی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ ایپل کے آئی او ایس کے مقابلے میں اینڈرائیڈ صارفین کا 10 گنا زیادہ ڈیٹا اکھٹا کیا جارہا ہے۔
یہ گوگل کے لیے ایک اور بڑا دھچکا ہے جس کے حوالے سے حال ہی میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ لوکیشن ہسٹری کو ٹرن آن کرنے کے باوجود یہ کمپنی صارفین کا لوکیشن ڈیٹا اکھٹا کرتی رہتی ہے۔ گوگل صارفین کی ٹریکنگ ہر وقت ہونے کا انکشاف تحقیق میں کہا گیا کہ گوگل صارفین کے ہر طرح کا ڈیٹا اکھٹا کرتا ہے، یعنی کیسی موسیقی سنتے ہیں یا دن بھر میں بھی سروسز وہ استعمال کرتے ہیں، ان کا دیٹا اکھٹا کیا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ڈیٹا کا بڑا حصہ بشمول لوکیشن انفارمیشن اینڈرائیڈ فونز گوگل کو بھیج دیتے ہیں، چاہے صارفین اینڈرائیڈ ڈیوائسز یا کروم براﺅزر کو زیادہ استعمال نہ بھی کررہے ہوں۔ تحقیق میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اینڈرائیڈ فونز میں کروم بیک گراﺅنڈ میں چل کر 24 گھنٹے میں 340 بار گوگل کو لوکیشن انفارمیشن ارسال کرتا ہے یا گھنٹہ بھر میں 14 بار، اس کے نتیجے میں گوگل کو صارفین کی دلچسپی کا حیران کن حد تک درستگی کے ساتھ علم ہوتا ہے۔ گوگل خاموشی سے آپ کی ہر بات ریکارڈ کرنے لگا تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ گوگل ایسے گمنام ڈیٹا کو بھی اکھٹا کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے اشتہاری ٹولز کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے گوگل نے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ محقق اس سے پہلے ایک کاپی رائٹ کیس میں گواہ کی حیثیت سے سامنے آچکے ہیں، جو کہ کمپنی کے خلاف تھا۔ گوگل ترجمان کے مطابق یہ رپورٹ ایک پروفیشنل ڈی سی لابسٹ گروپ نے مرتب کی ہے جو کہ اوریکل کے ساتھ کمپنی کے چل رہے کاپی رائٹ کیس میں گواہ کی حیثیت سے بھی پیش ہوچکے ہیں، تو یہ حیران کن نہیں کہ وہ انتہائی گمراہ کن معلومات کو بیان کررہے ہیں۔ دوسری جانب محقق پروفیسر ڈوگلس ایس اسکمیڈٹ نے گوگل کے ردعمل پر کہا کہ وہ اس مقدے میں اوریکل کے گواہ نہیں تھے بلکہ وہ اوریکل بمقابلہ گوگل فیئر یوز ٹرائل کے گواہ تھے، وہ بھی مئی 2016 میں، جس کے بعد مقدمے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واضح نہیں کہ انتہائی گمراہ کن معلومات سے گوگل کا مطلب کیا ہے۔