نیویارک (نیوزڈیسک) پوری دنیا کی آب وہوا میں کی ڈرامائی تبدیلیاں ہورہی ہیں اور جان لیوا گرمی کی لہروں ( ہیٹ ویوز) میں اضافہ ہورہا ہے لیکن 2075 تک ان کی شدت اور دورانیے میں ہولناک حد تک اضافہ ہوگا۔کلائمٹ چینج نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمی کی جو لہر ہر20 سال بعد کسی علاقے میں دیکھی جارہی تھیں وہ مستقبل قریب میں اتنی عام ہوں گی کہ گرمی کی لہر ہرسال رونما ہوں گی اور اس کی شدت 2075 تک اپنے عروج پر ہوگی۔نئے مطالعے کے تحت کرہِ ارض کے 60 فیصد علاقوں میں گرمی کی لہریں عام ہوں گی اور ان کا اثر مشرقِ وسطیٰ اور افریقا کے ممالک پر زیادہ ہوگا۔ یہ تحقیق امریکا میں لارنس لیورمور لیبارٹری کے سائنسداں مائیکل ویہنر اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مسقتبل میں گرمی کی شدید لہریں آج کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوں گی۔اپنے تجزیئے کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ گرمی کی یہ لہریں اس سے پہلے ہونے والے واقعات سے زیادہ شدید ہوں گی، زمین کے 60 فیصد رقبے پر گرمی کا درجہ حرارت آج کے مقابلے میں 5.4 فارن ہائیٹ زیادہ ہوسکتا ہے،اگرچہ یہ بہت زیادہ نہیں لیکن زمین کے حساس نظام اور متاثرہ آبادیوں پر اس کے زیادہ اثرات مرتب ہوں گے، پھر گرمی کا مستقل دورانیہ بچوں اور بوڑھوں دونوں کے لیے ہی ہلاکت خیز ثابت ہوسکتا ہے اور کراچی میں گزشتہ برس گرمی کی لہر میں ہم اس کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو کیونکہ اگر ابھی ہم گرین ہاو¿س گیسوں کے اخراج کو بہت حد تک کم کرلیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کم کرتے ہیں تو تپش کی اس آفت کو ٹالنا ممکن ہوسکے گا۔ دوسری جانب امریکی قومی مرکز برائے فضائی تحقیق کے ماہرین نے بھی کہا ہے کہ اس صدی کے وسط تک ہم موسم میں غیرمعمولی تبدیلیاں دیکھیں گے۔