بوسٹن(نیوز ڈیسک)ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ غیرضروری یادداشت کو ایک طرح کے’’ ٹریش فولڈر‘‘ میں پہنچا دیتا ہے لیکن انہیں دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ امریکا میں میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ میموری کیا ہوتی ہے، کہاں ہوتی ہے اور اسے دوبارہ واپس لایا جاسکتا ہے۔ ماہرین نے اس کے لیے 3 اقسام کے چوہے استعمال کیے جو بھولنے کے مریض تھے اورچوہوں کے پاؤں پر ہلکا کرنٹ دے کر انہیں ایک مضبوط یادداشت دی گئی تھی جب کہ اس میں نیلی روشنی استعمال کرکے اس تکلیف دہ شاک (کرنٹ) کی یاد کو تازہ کیا گیا۔ماہرین کے مطابق اس تحقیق سے الزائیمر اور ڈینمنشیا جیسے امراض میں یادداشت کھونے کے عمل کو سمجھنے میں بہت مدد سکے گی۔ اسی طرح کسی حادثے اور سانحے کے بعد کی تلخ یادیں کس طرح ہمارے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں اور بار بار کی کوشش سے بھی وہ نہیں جاتیں اور اس کی وجہ جاننے میں بھی مدد ملے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی سطح پر یاد ہم اس شے کو کہتے ہیں جو دماغی خلیات (سیلز) کیدرمیان سگنلنگ سے وجود میں آتے ہیں اور ان کا انحصار خاص اے ایم پی اے ریسپٹرز پر ہوتا ہے۔ جن جن علاقوں پر دماغی خلیات جڑیں گے اور وہاں زیادہ سے زیادہ اے ایم پی اے ریسپٹرز ہوں گے وہ یادداشت اتنی ہی پکی اور مضبوط ہوگی اور جب جب یادداشت کو دْہرایا نہیں جاتا اے ایم پی اے ریسپٹرز کمزور پڑتے جاتے ہیں اور یاد مٹتی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہیکہ دماغ فالتو یادوں کو ٹریش بن میں ڈال دیتا ہے لیکن اسے واپس لانا ممکن ہے اور دوسری جانب دماغی امراض میں یادداشت کھونے کے عمل کو بھی سمجھنا ممکن ہے۔