لندن(نیوزڈیسک)ریان لویس برطانیہ کی پہلی خاتون ہیں جنھیں دنیا کی جدید بایونک آنکھ لگائی گئی ہے۔ایک عشرے سے زیادہ جزوی طور پر بصارت سے محروم ریان لویس بایونک یا مشینی آنکھ کی مدد سے روشنی کی کرنیں دیکھنے کے قابل ہو گئی ہیں۔49 سالہ ریان لویس کو ‘آکسفورڈ جان ریڈ کلف اسپتال’ میں جاری ایک تحقیق کے حصے کے طور پر مصنوعی آنکھ لگائی گئی ہے۔یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے مطابق چھ گھنٹے طویل آپریشن کے دوران آکسفورڈ آئی اسپتال کی سرجیکل ٹیم نے انتہائی احتیاط سے لویس کی داہنی آنکھ کے ریٹینا کی پشت پر ایک الیکٹرونک چپ نصب کی ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں ان کا دماغ برقی سگنلز کو زیادہ سے زیادہ قبول کرنے لگے گا اور روشنی کی کرنوں سے بامعنی اشکال اور تصاویر بنانے کے قابل ہو جائے گا۔تاہم ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ تصاویر سیاہ اور سفید ہو سکتی ہیں اور دھندلی بھی ہو سکتی ہیں لیکن اس کے باوجود جدید مشینی آنکھ بصارت سے محروم مریضوں کی زندگی کو پوری طرح سے تبدیل کرنے کے قابل ہے۔لویس جب پانچ سال کی تھیں تو ان میں ‘ریٹنائٹس پگمنٹوسا’ نامی آنکھوں کی ایک موروثی بیماری کی تشخیص ہوئی جو ریٹینا میں ‘فوٹو ریسیپٹرز’ نامی روشنی کے خلیات میں بتدریج کمی کا سبب بنتی ہے اور آگے چل کر اندھے پن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔کارڈف کی رہائشی لویس جو دو بچوں کی ماں ہیں پچھلے 16 سالوں سے اپنی دائیں آنکھ سے مکمل طور پر نابینا ہیں جبکہ چھ سال سے وہ اپنی بائیں آنکھ سے بھی بہت کم دیکھ پاتی تھیں۔یہ بایونک آئی 1,500 روشنی کے سینسرز کے ساتھ ایک 3 ملی میٹر کی الیکٹرانک چپ ہے جو عصبی خلیات کو برقی سگنلز بھیجتی ہے۔ یہ چپ کان کے پیچھے ایک چھوٹے کمپیوٹر یا ڈیوائس سے منسلک ہے، اسے جلد پر میگنیٹک کوئل یا مقناطیسی گولے کے ذریعے توانائی ملتی ہے اور یہ دیکھنے میں ایک سماعت کا آلہ معلوم ہوتی ہے۔ آپریشن کے بعد ٹیسٹ کے دوران ڈاکٹروں نے لیوس کو ایک گتے پر گھڑی کا وقت دیکھنے کے لیے کہا تھا اور لویس نے درست طریقے سے گھڑی پر وقت پڑھ کر بتایا ہے۔لویس نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ وہ آلے کا سوئچ آن کرنے جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ میں اپنی آنکھ میں کوئی چمک محسوس نا کروں لیکن اچانک چند لمحوں میں میری آنکھ روشنی کی کرنوں سے روشن ہو گئی یہ روشنی کی چمک میں نے پچھلے سولہ سالوں سے نہیں دیکھی تھی۔لویس نے کہا کہ بینائی سے محروم ہونے کی وجہ سے وہ اپنا اعتماد کھو چکی تھیں کیونکہ بصارت کی محرومی کے ساتھ آپ کہیں آنے جانے کے قابل نہیں رہتے ہیں اور روزمرہ کے کاموں مثلاً خریداری نہیں کر سکتے ہیں یا پھر یہ بھی نہیں جانتے ہیں کہ آپ کیسے لگ رہے ہیں۔ آنکھوں کی موروثی بیماریوں کے علاج کے لیے 2012 میں پہلی بار ‘بایونک آنکھ’ کا تجربہ کیا گیا تھا۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں