پیر‬‮ ، 15 ستمبر‬‮ 2025 

داد وتحسین کے مستحق نوجوان، جن کی ایجادات سے زندگی بنی آسان

datetime 19  اکتوبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور: (نیوز ڈیسک) نوجوانی عمر کا وہ حصہ ہے جس میں سیکھنے کی صلاحیت اور تجسس اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ اگر اسی تجسس کو درست سمت مل جائے تو جینئس پیدا ہوتے ہیں۔ آئیے ہم آپ کو ایسے نوجوانوں اور ان کی ایجادات کے بارے میں بتاتے ہیں جو واقعی داد وتحسین کے مستحق ہیں۔صحت مند انسان تو زندگی کی ہر نعمت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں لیکن معذوری انسان کو محتاجی پر مجبور کر دیتی ہے۔ نابینا افراد کا شمار بھی ان انسانوں میں ہوتا ہے جنھیں دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہونے کے باعث بہت مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اپنی اس معذوری کے باعث ان کی زندگی دوسروں کے مرہون منت ہوتی ہے۔ لیکن ان ہی میں ایک نام لوئس بریل کا ہے جو پیدائشی طور پر اندھے تھے۔ اپنی اس معذوری کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انھیں بے پناہ ذہانت عطا کی تھی۔ لوئس بریل نے نابیناﺅں کیلئے ابھرے ہوئے حروف کو پڑھنے کا ایک طریقہ ایجاد کیا۔ یہ حروف چ±ھو کر پڑھے جاتے ہیں۔ دراصل یہ حروف نہیں ہوتے بلکہ چھ لفظوں کی مدد سے حروف کی اور ہندوسوں کی علامتیں بنائی جاتی ہیں۔ حرف شناسی کا یہ طریقہ ایجاد کرنے والے لوئس بریل 1809ءمیں فرانس میں پیدا ہوئے تھے۔ جب انہوں نے یہ حیرت انگیز ایجاد کی تو ان کی عمر صرف 16 سال تھی۔کینتھ شینوزوکا کی عمر ابھی 15 سال تھی کہ ایک واقعے نے انھیں دہلا کر رکھ دیا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک دن ان کے دادا جو ذہنی بیماری الزائمر کے مریض تھے اچانک لاپتا ہو گئے۔ پولیس نے بڑی تگ ودو کے بعد انھیں تلاش کرکے انھیں گھر پہنچایا۔ اس ایک واقعے نے کینتھ شینوزوکا نے ان کے ذہن پر بہت اثر چھوڑا۔ اس نے اپنے من میں ٹھانی کے وہ ایک ایسی ڈیوائس تیار کرے گا جس سے الزائمر کے مریضوں کو فائدہ پہنچ سکے۔ کینتھ شینوزوکا نے اس کے بعد ایک ایسی سینسر ڈیوائس تیار کی جو الزائمر کے مریضوں کی دیکھ بھال پر مامور افراد کو موبائل ایپ کے ذریعے ا?گاہ کر دیتی ہے۔ کینتھ شینوزوکاکی اس ایجاد سے الزائمر کے مریضوں کی زندگی بہت حد تک سہل ہو چکی ہے۔ امریکا سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی نے صرف 18 سال کی عمر میں اپنی ایجاد سے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ ایشا کھرے نے ایک ایسی ڈیوائس تیار کی جس کی مدد سے موبائل فون کی بیٹری صرف 20 سیکنڈز میں چارج ہو جاتی ہے۔ اپنی اس حیرت انگیز ایجاد کی وجہ سے 2013ء میں ایشا کھرے کو ینگ سائنٹسٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
2011ئ میں جب کائیل سائمنڈز صرف 8 سال کی تھیں تو انھیں جان لیوا بیماری کینسر سے آگھیرا۔ چھوٹی سی عمر میں کیمو تھراہی کا کورس کائیل سائمنڈز کیلئے شدید آزمائش کا باعث تھا۔ یہی وہ موقع تھا جب اس نے سوچا کہ جب اسے اتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دیگر بچوں کا کیا حال ہوتا ہوگا؟۔ کائیل سائمنڈز نے کینسر میں مبتلا بچوں کیلئے ایک ایسا بیگ تیار کیا جس میں کیمو تھراپی کے آلات کو رکھا جا سکتا تھا۔ کائیل سائمنڈز کی اس ایجاد سے کینسر میں مبتلا بچوں کی زندگی بہت ا?سان ہو چکی ہے کیونکہ وہ اس بیگ کے ساتھ روزمرہ کے دیگر کام بھی کر سکتے ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



انجن ڈرائیور


رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…