ہفتہ‬‮ ، 05 جولائی‬‮ 2025 

سیاہ ترین رنگ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

datetime 7  جون‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوزڈ یسک )یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سین ڈی ایگو میں ایک گریجویٹ طالب علم لزی کالڈول چھوٹے چھوٹے دھاتی سکوئر پر کالے رنگ کا پینٹ کر رہی ہیں۔ سائنسی تجربات کی صف میں شاید اتنا شاندار منظر نہیں۔مگر جو پینٹ وہ استعمال کر رہی ہیں وہ انتہائی پیچیدہ تحقیق کا نتیجہ ہے۔ شاید انسانی تخلیقات میں یہ سیاہ ترین مواد ہے۔ییونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی تحقیقاتی ٹیم شمسی توانائی سے چلنے والے بجلی گھروں کو زیادہ موثر بنانے کے لیے ایسا مواد تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو زیادہ سے زیادہ شمسی تونائی جذب کر سکے دیر پا بھی ہو۔’ہارٹ آف ڈارکنس‘یہ پینٹ نئی طرز کے شمسی توانائی پلانٹس بنانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس میں ہزاروں شیشوں کی مدد سے سورج کی روشنی کو ایک مینار کی طرف منعکس کیا جاتا ہے جس پر یہ انتہائی سیاہ پینٹ لگا ہوتا ہے۔ اس روشنی کو شدید حرارت میں تبدیل کر کے اسے بھاپ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بھاپ کی مدد سے بجلی پیدا کر جا سکتی ہے۔اس پلانٹ میں ہزاروں شیشوں کی مدد سے سورج کی روشنی کو ایک مینار کی طرف منعکس کیا جاتا ہے جس پر یہ انتہائی کالا پینٹ لگا ہوتا ہے۔یہ بجلی پیدا کرنا کا انتہائی ماحول دوست طریقہ ہے اور اس کی مدد سے پیٹرولیم مصنوعات کی مدد سے بجلی پیدا کرنے والے موجودہ پلانٹس کو اس ٹیکنالوجی پر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس حرارت کو سنبھالا بھی جا سکتا ہے تاکہ جب سورج نہ چمک رہا ہو تب بھی بجلی پیدا کی جا سکے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ روشنی جذب کرنے کے لیے موجودہ مواد کی پرفارمنس ناکافی ہے۔ وہ اس قابل نہیں کہ اس قدر حرارت برداشت کر سکیں اور نہ ہی وہ زیادہ دیر پا ہیں۔سائنس دانوں کی ٹیم میں شامل پروفیسر ریکن چین کا کہنا ہے کہ نیا مواد انتہائی مختلف ہو گا۔’سب سے پہلے تو یہ انتہائی موثر طریقے سے سورج کی روشنی کو جذب کرتا ہے۔ دوسرا یہ 700 ڈگری سینٹی گریڈ تک حرارت برداشت کر لیتا ہے۔ یہ سب موجود مواد کے ساتھ ممکن نہیں۔‘مواد جتنا کالا ہوتا ہے اتنی ہی زیادہ شمسی روشنی جذب کرتا ہے۔اس نئے پینٹ کا راز نینو ٹیکنالوجی میں ہے۔ اس کی سطح پر ایسے ذرات ہوتے ہیں جو کہ روشنی کا انعکاس انتہائی کم کر دیتے ہیں۔اس کی سطح پر ایسے ذرات ہوتے ہیں جو کہ روشنی کا انعکاس انتہائی کم کر دیتے ہیںتحقیقی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ یہ پینٹ سورج سے آنے والی 90 فیصد روشنی جذب کر لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے ذرات کا حجم روشنی کی ویوولنتھ کے قریب ہے جس کے ذریعے یہ زیادہ سے زیادہ روشنی جذب کر لیتے ہیں۔اس کے ذرات اس قدر چھوٹے ہیں کہ روشنی جب اس میں داخل ہوتی ہے تو ایسے پھنس جاتی ہے جیسے کہ کوئی گھنے جنگل میں گم ہو جائے۔‘مگر یہ تو ہے نظریہ۔ اور یہ چھوٹے چھوٹے دھاتی مربع اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ نظریات کو عملی شکل دینا کتنا مشکل ہے۔یہ نینو ذرات خوردبین کی مدد سے دیکھے جا سکتے ہیںہر مربع کا فارمولا ایک دوسرے سے ذرا سا مختلف ہے کیونکہ ٹیم بہترین فارمولے کی تلاش میں ہے

150605152055_solar_painting_624x351_getty_nocredit

۔’ففٹی شیڈز آف بلیک‘محققین کا کہنا ہے کہ سب سے کالے رنگ کی تلاش میں ہیں۔ خوردبین کے نیچے یہ نینو ذرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس تحقیق کے لیے مالی امداد امریکی حکومت کے سن شاٹ پروگرام سے کی جا رہی ہے جس کا مقصد شمسی تونائی کو توانائی کے دیگر وسائل جتنا منافع مند بنایا جا سکے۔مگر اس خواب کی تعبیر میں ابھی بہت وقت چاہیے۔ بڑے پیمانے پر پیدا کی گئی بجلی میں سے صرف ایک فیصد شمسی توانائی سے آتی ہے، تاہم شمسی تونائی کا رجحان دنیا بھر میں بڑھ رہا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



وائے می ناٹ


میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…