اسلام آباد (نیوز ڈیسک )سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے قدیم مصر کے جانوروں کی حنوط شدہ لاش تیار کرنے کی صنعت کے سکینڈل کا راز فاش کر دیا ہے۔مانچسٹر میوزیم اور مانچسٹر یونیورسٹی میں کیے جانے والے سکیننگ پروگرام میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تقریباً ایک تہائی کپڑے کے بنڈل اندر سے خالی ہیں۔محققین کا خیال ہے کہ قدیم مصری سماج میں اس مذہبی نذرانے کا بہت زیادہ مطالبہ رہا ہوگا اور ممی کی مانگ فراہمی سے زیادہ ہو گئی ہوگی۔قدیم مصر کی ممیوں پر ریسرچ کرنے والی ٹیم اپنی نوعیت کا وسیع ترین سکیننگ پروجیکٹ چلا رہی ہے۔اس کے تحت ابھی تک 800 سے زیادہ جانوروں کی حنوط شدہ لاش کا ایکسرے اور سٹی سکین کیا جا چکا ہے جن میں بلیوں اور پرندوں سے لے کر گھڑیال تک شامل ہیں۔ابھی تک جتنے جانوروں کی حنوط شدہ لاشوں کا سکین کیا گیا ہے ان میں سے ایک تہائی مکمل جانور ہیں اور انھیں بہت اچھی طرح محفوظ کیا گیا ہے۔ابھی تک 800 سے زیادہ جانوروں کی سکیننگ ہوئی ہے جس میں سے ایک تہائی میں جزوی طور پر جانوروں کے باقیات پائے گئے ہیںتیسرے حصے میں جزوی طور پر اصلی جانوروں کی باقیات ہیں جبکہ باقی ماندہ پوری طرح سے خالی ہے۔مانچسٹر یونیورسٹی کے مصری مطالعات کی ماہر ڈاکٹر لیڈیجا میک نائٹ کا کہنا ہے ’اس میں حیرت کا عنصر ہے۔ ہمیں سدا سے یہ معلوم تھا کہ تمام ممیوں میں وہ نہیں ہے جس کی ہمیں توقع ہے لیکن ہمیں ایک تہائی میں کسی جانور کے باقیات نہیں ملے یعنی کوئی ڈھانچہ نہیں ملا۔‘انھوں نے بتایا کہ جانوروں کے باقیات کے بجائے کپڑوں کو دوسری چیزوں سے بھرا گیا تھا۔ہمیں معلوم ہے کہ مصری جانوروں کے روپ میں خدا کی پوجا کرتے تھے اور جانوروں کی ممی کسی نہ کسی روپ میں دیوتاو¿ں کی دنیا سے تعلق پیدا کرتی تھی۔مصر اور سوڈان کے کیوریٹر ڈاکٹر کیمبل پرائسبنیادی طور پر ان میں مٹی، چھڑی اور سرکنڈے وغیرہ تھیں جو کہ عام طور پر ممی بنانے والے کارخانے کے پاس دستیاب ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ انڈوں کے چھلکے، پرندوں کے پر وغیرہ تھے جو کہ جانوروں سے تعلق تو رکھتے ہیں لیکن اپنے آپ میں جانور نہیں ہیں۔‘خیال رہے کہ انسانی لاشوں کو اس لیے ممی بنایا جاتا تھا کیونکہ اس کا تعلق دوسری یا آخروی زندگی سے تھا جبکہ جانوروں کی ممیاں مذہبی نذرانے کے لیے ہوا کرتی تھیں۔مانچسٹر میوزیم میں مصر اور سوڈان کے کیوریٹر ڈاکٹر کیمبل پرائس نے بتایا: ’ہمیں معلوم ہے کہ مصری جانوروں کے روپ میں خدا کی پوجا کرتے تھے اور جانوروں کی ممی کسی نہ کسی روپ میں دیوتاو¿ں کی دنیا سے تعلق پیدا کرتی تھی۔‘اس میوزیم میں جانوروں کی ممیوں کی اکتوبر میں نمائش ہونے والی ہے۔انھوں نے بتایا: ’جانوروں کی ممی عقیدت مندانہ نذرانہ ہوا کرتا تھا۔ آج اگر چرچ میں موم بتی جلائی جاتی ہے اسی طرح قدیم مصر میں حنوط شدہ جانور ہوا کرتے تھے۔‘انھوں نے مزید بتایا کہ آپ کسی مخصوص مقام پر گئے، وہاں سے لین دین کی بنیاد پر جانور کی ممی خریدی پھر آپ نے اسے کسی پجاری کو دیا جو کہ ایک قسم کے جانوروں کو اکٹھا دفن کردیا کرتا تھا۔محققوں کا خیال ہے کہ مصر میں مذہبی طور پر پیش کیے جانے والے نذرانے کی مانگ زیادہ رہی ہوگی اس لیے اسے پورا کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہوگاکھدائی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس قسم کے متبرک نذرانے کا بہت مطالبہ تھا۔مصر میں تقریباً 30 بڑے جانوروں کے مزار ملے ہیں جن میں فرش سے چھت تک لاکھوں ممیاں تھیں۔ ہر ایک مزار ایک ہی قسم کے جانور کے لیے تھا۔ یعنی اگر کتے کا مزار ہے تو اس میں کتے ہی ہیں اور بلی کا مزار ہے تو اس میں بلیاں ہی ہیں۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ تقریباً سات کروڑ جانوروں کو مصریوں نے مومی جامہ پہنایا ہوگا۔ڈاکٹر پرائس کا کہنا ہے کہ 800 قبل مسیح اور عہدِ روما کے دوران مصر میں سب سے زیادہ ممی بنانے کا دور رہا ہے۔بہر حال جزوی یا مکمل طور پر خالی جانوروں کی ممیاں دھوکہ نہیں تھیں اور زائرین کو اس بات کا علم رہا ہوگا کہ وہ مکمل جانور نہیں خرید رہے ہیں۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں