لاہور(این این آئی) لاہور ہائیکورٹ نے قیام پاکستان سے پہلے شروع ہونے والا جائیداد کا تنازع حل کرتے ہوئے بہن کی اولاد کو جائیداد میں حصہ دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔عدالت نے قرار دیا کہ غفوراں بی بی اپنی زندگی میں کبھی عدالت نہیں گئیں اور ان کی وفات کے بعد اولاد نے 21 برس تک خاموشی اختیار کیے رکھی، اچانک 2009 میں 1952 کے معاہدے کے خلاف دعویٰ دائر کردیا جو قانون کے مطابق قابل سماعت نہیں تھا۔
جسٹس خالد اسحاق نے جمشید سمیت دیگر کی اپیل پر 29 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ 1945 میں کریم بخش کی بھارت کے موضع براس میں زمین تھی، قیام پاکستان سے پہلے کریم بخش کا انتقال ہوچکا تھا، ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی پاکستان ہجرت کر کے آئے، کریم بخش کی جائیداد بڑے بیٹے عبدالغفور کے نام ہوئی لیکن وہ قیام پاکستان کے وقت ہی جاں بحق ہو گئے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عبدالغفور کی بیوہ اور بھائی نے 1948 کے سیٹلمنٹ اینڈ ری ہیبلیٹیشن آرڈیننس کے تحت بھارت کی زمین کے عوض پاکستان میں جائیداد مانگی جس پر 1952 میں کامونکی میں پراپرٹی الاٹ کی گئی اور اس معاہدے میں عبدالغفور کی بیوہ اور بھائی کو شریک کیا گیا، معاہدے میں بہن غفوراں بی بی کا ذکر نہیں تھا۔فیصلے میں کہا گیا کہ غفوراں بی بی 1988 تک زندہ رہیں لیکن انہوں نے کبھی اس معاہدے کو چیلنج نہیں کیا، ان کے بھائی 1985 تک زندہ رہے اور پراپرٹی ان کی اولاد میں تقسیم ہو گئی، غفوراں بی بی کی اولاد نے پہلی بار 2009 میں دعویٰ دائر کیا جو ٹرائل کورٹ نے 2013 میں خارج کردیا، بعدازاں اپیلٹ کورٹ نے یہ دعویٰ منظور کرتے ہوئے بہن کی اولاد کے حق میں فیصلہ دیا۔
لاہور ہائیکورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کے سامنے تین سوالات تھے، کیا تاخیر سے دائر دعویٰ قابلِ سماعت ہے یا نہیں؟ کیا بھارت سے منتقل شدہ جائیداد پر شریعت کا قانون لاگو ہوتا ہے؟ اور کیا 1952 میں بہن کو حصہ نہ دینا درست تھا؟عدالت نے قرار دیا کہ تاخیر سے دائر دعویٰ قانون کے مطابق ناقابل سماعت ہے، 1952 کے معاہدے میں شریعت ایکٹ لاگو تھا اور بہن یا ان کی اولاد نے دہائیوں تک کوئی آواز نہ اٹھا کر دعویٰ کرنے کا حق کھو دیا، اس بنیاد پر ہائیکورٹ نے اپیل منظور کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کا بہن کی اولاد کے حق میں فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔