اسلام آباد (این این آئی)وزرارت داخلہ کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سال 2021 سے جون 2025 تک درج ہونے والے 567 جنسی استحصال کے مقدمات میں سے 200 بچوں سے متعلق ہیں۔وزارت داخلہ نے سینیٹر شہادت اعوان نے اسلام آباد میں گزشتہ 4 برسوں کے دوران جنسی زیادتی کے مقدمات سے متعلق اعداد و شمار سینیٹ میں پیش کر دیے، وزارت داخلہ کی جانب سے تحریری جواب میں میں بتایا گیا کہ 200 بچوں کے جنسی استحصال کے کیسز میں سے 93 لڑکے جب کہ 108 لڑکیاں شامل ہیں۔جواب کے مطابق جنسی تشدد میں ملوث 222 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے صرف 12 کو سزا ہوئی، 163 مقدمات زیرِ سماعت ہیں، 15 ملزمان بری ہو گئے جب کہ 26 اب بھی مفرور ہیں۔وزیر داخلہ محسن نقوی نے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ اسلام آباد کے تمام تھانوں سے زونل سپرنٹنڈنٹ پولیس کے ذریعے حاصل شدہ رپورٹ کے مطابق یکم جنوری 2021 سے 20 جون 2025 تک کل 567 ذیادتی کے مقدمات درج ہوئے اور 625 ملزمان گرفتار کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ 567 کیسز میں سے 485 کیسز عدالتوں میں بھیجے گئے، 80 ملزمان کو سزا ہوئی، 23 کو بری کیا گیا اور 406 کیسز ابھی تک عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں، 29 مقدمات تفتیش کے مراحل میں ہیں جو جلد مکمل کر لیے جائیں گے۔وزارت کے مطابق 2022 سے 2025 تک اسلام آباد میں 266 بچوں کے لاپتا ہونے کے کیسز بھی درج ہوئے، جن میں 153 لڑکے اور 120 لڑکیاں شامل تھیں۔ان کیسز میں سے 135 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 2 کو سزا ہوئی، 21 کو بری کر دیا گیا جبکہ 103 کے خلاف مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔واضح رہے کہ سول سوسائٹی تنظیم ساحل کی مئی 2024 کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں چاروں صوبوں، اسلام آباد، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سے بچوں کے جنسی استحصال کے 3 ہزار 364 مقدمات رپورٹ ہوئے تھے، یہ اعداد و شمار ملک کے 81 قومی و علاقائی اخبارات سے حاصل کیے گئے تھے۔جولائی 2025 میں پولیس نے پنجاب کے ضلع قصور میں ایک شخص کو گرفتار کیا جب ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اسے ایک کمسن بچی کو مبینہ طور پر ہراساں کرتے دیکھا گیا تھا۔
جون 2025 میں نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی ( این سی سی آئی اے) نے پنجاب کے شہر مظفرگڑھ میں بچوں کے جنسی استحصال کے ایک گروہ کو بے نقاب کیا تھا، 2 مشتبہ افراد کو گرفتار اور 10 بچوں کو بازیاب کرایا گیا تھا۔جنوری 2018 میں پولیس نے 6 سالہ زینب امین کی لاپتا ہونے کے 5 دن بعد لاش برآمد کی تھی، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ بچی کو قتل سے پہلے ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس پر پورے ملک میں شدید غم و غصہ پھیل گیا تھا۔زینب کیس کے 2 سال بعد قومی اسمبلی نے ‘زینب الرٹ، ریسپانس اینڈ ریکوری بل 2019’ منظور کیا تھا، جس کا مقصد بچوں کے استحصال کے مجرموں کے خلاف فوری تحقیقات اور سزا کو یقینی بنانا ہے۔