اسلام آباد (نیوز ڈیسک) 21 جولائی کو پیر کے روز بابوسر ٹاپ کے قریب موسم نے اچانک ایسا رخ بدلا کہ قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہونے والے سیاحوں کو خبر بھی نہ ہوئی کہ ان کی زندگیاں لمحوں میں بدلنے والی ہیں۔ اچانک شروع ہونے والی تیز بارش، پگھلتی برف اور پہاڑوں سے گرنے والی چٹانوں نے مل کر خطرناک سیلابی ریلے کو جنم دیا، جو راستے میں آنے والی ہر چیز کو اپنے ساتھ بہا لے گیا۔اس دل خراش واقعے میں لودھراں سے آنے والا ایک خاندان بھی شامل تھا جو ایک کوسٹر پر سیر کے لیے نکلا تھا۔
تھک ویلی کے مقام پر جب انہوں نے اچانک آنے والے ریلے کو آتے دیکھا، تو جان بچانے کے لیے سب جلدی میں گاڑی سے نکلے۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے اس المیے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ خاندان طویل عرصے بعد، تقریباً 13 سال بعد، اکٹھا ہوا تھا۔ اس خاندان کے اہم فرد فہد اسلام، جو شاہدہ اسلام میڈیکل کالج لودھراں کے ایم ڈی بھی تھے، اپنی والدہ شاہدہ اسلام کا ہاتھ تھامے محفوظ مقام کی طرف بڑھ رہے تھے جب انہیں اپنی بھابھی ڈاکٹر مشعل کی چیخ سنائی دی۔ وہ اپنے پانچ سالہ بیٹے ہادی کو بچانے کی کوشش کر رہی تھیں۔فہد اسلام فوراً ان کی مدد کو لپکے، لیکن پانی کی شدت کے آگے بے بس ہو گئے اور چند لمحوں میں فہد، ڈاکٹر مشعل اور ننھا ہادی سیلاب کی نذر ہو گئے۔ فہد اسلام اور مشعل موقع پر جاں بحق ہو گئے، جبکہ کم سن ہادی تاحال لاپتہ ہے۔
مشعل کے شوہر ڈاکٹر سعد اسلام بھی اس واقعے میں شدید زخمی ہوئے۔ڈاکٹر شاہدہ اسلام نے بتایا کہ حادثے کے وقت سب لوگ جلدی میں کوسٹر سے باہر نکلے تھے، لیکن مشعل اور ان کا بیٹا پیچھے رہ گئے۔ فہد ان کی مدد کو پہنچے تو چند لمحوں میں پانی انہیں بہا لے گیا۔اس اندوہناک واقعے کے بعد نہ صرف متاثرہ خاندان بلکہ ان کے علاقے میں بھی گہرے سوگ کی فضا ہے۔ عوام کی جانب سے بھی قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ریسکیو 1122 چلاس کے ترجمان پختون ولی نے بی بی سی کو بتایا کہ مجموعی طور پر اس حادثے میں پانچ افراد جاں بحق ہوئے۔