اسلام آباد (نیوز ڈیسک)سابق سینیٹر اور صدر آصف علی زرداری کے ترجمان رہنے والے فرحت اللہ بابر نے اپنی کتاب “دی زرداری پریزیڈنسی” میں انکشاف کیا ہے کہ اکتوبر 2011 میں میموگیٹ اسکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد جب ریاستی اداروں کے درمیان کشیدگی شدید ہو گئی، تو صدر زرداری سخت ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو گئے تھے۔کتاب کے مطابق، اس نازک وقت میں صدر زرداری دبئی میں علاج کروانے کے لیے پُرعزم تھے اور حتیٰ کہ مسلح ہو کر روانگی کی تیاری بھی کر لی، لیکن ان کی روانگی کو روک دیا گیا۔
ان کی صحت تیزی سے بگڑ رہی تھی جس پر فوری طور پر آذربائیجان میں موجود ان کے قریبی معالج ڈاکٹر عاصم حسین کو پاکستان بلایا گیا۔صدر مملکت نے ملٹری اسپتال میں علاج کروانے سے انکار کر دیا، جس کے بعد ان کے سامنے صرف دو راستے بچے: کراچی یا دبئی۔ نجی ملاقات میں انہوں نے فیصلہ اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری پر چھوڑ دیا۔ بلاول نے دبئی میں علاج کو ترجیح دی، مگر ڈاکٹرز نے فضائی سفر سے گریز کی ہدایت کی اور ڈاکٹر عاصم نے کراچی میں اپنے ذاتی اسپتال میں علاج پر زور دیا۔اسی دوران ایک اور رکاوٹ کھڑی ہو گئی — صدر زرداری کا اصرار تھا کہ وہ پاکستانی سفیر حسین حقانی کو ساتھ لیے بغیر ملک سے باہر نہیں جائیں گے، کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ اگر حقانی پیچھے رہ گئے تو وہ دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں اور کہیں ان کے خلاف ہی سلطانی گواہ نہ بن جائیں۔زرداری کا مؤقف تھا کہ میموگیٹ کا اصل نشانہ حسین حقانی نہیں بلکہ خود وہ تھے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے خبردار کیا کہ اگر دونوں ملک سے باہر گئے تو میڈیا اور سیاسی حلقے اسے فرار قرار دیں گے، جس سے حکومت کو شدید سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گیلانی نے یہ بھی کہا کہ اگر زرداری ملک میں ہی ٹیسٹ کراتے ہیں تو نتائج کو بنیاد بنا کر عدالتیں ان کی نااہلی کا جواز ڈھونڈ سکتی ہیں۔فرحت اللہ بابر کے مطابق، زرداری کو حقانی کے بغیر روانگی پر آمادہ کرنا ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا، خاص طور پر جب حقانی کا نام سپریم کورٹ کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) میں شامل کیا جا چکا تھا۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر صدر کو بے ہوش کر کے ہیلی کاپٹر تک پہنچانے کی تجویز بھی زیرِ غور آئی، لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا۔ہیلی کاپٹر کی روانگی میں گھنٹوں تاخیر ہوئی کیونکہ صدر زرداری نے واضح کر دیا کہ وہ حقانی کے بغیر ہرگز نہیں جائیں گے۔
وزیر اعظم نے انہیں یقین دلایا کہ حقانی کو وزیر اعظم ہاؤس میں تحفظ فراہم کیا جائے گا، مگر زرداری اپنے مؤقف پر قائم رہے۔بالآخر جب دونوں ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے تو پائلٹ نے بتایا کہ دبئی سے ابھی تک لینڈنگ کی اجازت نہیں ملی۔ ایک معاون نے تجویز دی کہ پرواز کو کراچی موڑ دیا جائے، لیکن صدر زرداری نے دوٹوک جواب دیا کہ وہ 30 گھنٹے تک اجازت کا انتظار کر لیں گے، لیکن کراچی نہیں جائیں گے۔