کراچی(این این ن آئی) شہر قائد میں ایک خاتون اور اس کے 3کمسن بیٹوں کو تیز دھار آلے سے ذبح کر دیا گیا، پولیس نے مقتولہ کے شوہر کو گرفتار کرلیاہے۔گلستان جوہر کے علاقے بلاک 5 بتول اسپتال کے قریب شیر محمد بلوچ گوٹھ میں گھر سے خاتون اور 3 بچوں کی گلا کٹی لاشیں ملی ہیں، اطلاع ملنے پر پولیس اور امدادی اداروں کے رضاکار موقع پر پہنچے۔ترجمان کراچی پولیس کے مطابق جاں بحق ہونے والوں کی شناخت 35 سالہ صائمہ زوجہ ارشد علی بلوچ اور اس کے 3 بیٹے 9 سالہ اشہد ، 7 سالہ شاہ زین اور 2 سالہ احد کے ناموں سے کی گئی ۔ مقتولین کے لاشیں پہلے گلستان جوہر تھانے پھر وہاں سے جناح اسپتال منتقل کی گئیں ۔
ایس ایچ او گلستان جوہر انسپکٹر فہد الحسن نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ مددگار 15 پر واقعے کی اطلاع موصول ہوئی تھی جس پر وہ پولیس پارٹی کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور دیکھا کہ ایک کمرے میں چاروں لاشیں پڑی ہوئی تھیں ۔ مقتولین کو ملزم نے انتہائی بے دردی کے ساتھ تیز دھار آلے سے ذبح کیا تھا ۔ گھر کے صحن میں بھی خون پڑا تھا جہاں ایک بچے کی انگلی کا بھی کچھ حصہ پڑا تھا ۔انہوں نے بتایا کہ فوری طور پر فرانزک ڈپارٹمنٹ کو اطلاع کی گئی، جنہوں نے جائے وقوع سے شواہد اور فنگر پرنٹس اکھٹے کیے جب کہ گلستان جوہر تھانے کے شعبہ تفتیش کے افسران نے بھی جائے وقوع سے شواہد جمع اور علاقہ مکینوں کا بیان قلمبند کیا ۔
پولیس کے مطابق مقتولہ صائمہ کے شوہر ارشد علی بلوچ نے اپنے بیان میں بتایا کہ وہ ایرانی(سنجرانی بلوچ)قوم سے تعلق رکھتا ہے اور واقعے کے وقت گھر پر موجود نہیں تھا، تاہم گھر پہنچتے ہی اس کے پیروں سے زمین کھسک گئی جب اس نے اپنی اہلیہ اور تینوں بیٹوں کی خون میں لت پت لاشیں دیکھیں۔مقتولین کے چچا امداد علی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ رات ساڑھے12بجے میرا بھائی ارشدعلی گھرآیااس نے کہا فورا گھر پہنچو، بھائی کے گھر پہنچا تو صحن میں بڑے بیٹے کی لاش پڑی تھی۔بھابھی کی لاش دوسرے کمرے اور2 بچوں کی لاشیں علیحدہ کمرے میں پڑی تھیں، لاشیں دیکھنے کے بعد بہن اور بھابھی کے گھر جاکر انہیں جگایا ، ہم تمام رشتہ دار کچھ فاصلے پررہتے ہیں۔انھوں نے مزید بتایا کہ میرا بھائی موٹر سائیکل پر بچوں کے پاپڑ اور دیگر چیزیں لے کر پہنچا تھا، ہمارا ٹی وی کیبل اور انٹرنیٹ کیبل کا کام ہے ،بھائی کے2 تین مکان ہیں، ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔
ایس ایچ او نے بتایا کہ ارشد علی بلوچ نشے کا عادی ہے اور جب اسے حراست میں لیا گیا اس وقت بھی نشے میں دھت تھا ۔ اس کا بیان مشکوک تھا جس کے باعث پولیس نے اسے حراست میں لے لیا ارشد علی نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا تھا کہ وہ شام کو ڈالمیا اپنے ماموں کے گھر گیا تھا جب کہ تصدیق کرنے پر یہ بیان جھوٹ نکلا۔ اس کے علاوہ بھی اس کے دیے گئے بیانات جھوٹے نکلے۔دریں اثنا ارشد علی کے سسر محمد اسلم بلوچ نے بھی اپنے داماد کو اپنی بیٹی اور اس کے 3 بیٹوں کے قتل کے مقدمے میں نامزد کیا ہے، جس پر زیر حراست ملزم ارشد علی بلوچ کو اپنی اہلیہ اور 3 بچوں کے قتل کے الزام میں باقاعدہ گرفتار کر لیا گیا ۔
مقتول کے بھتیجے شہزاد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ارشد علی بلوچ کا شیر محمد بلوچ گوٹھ ، قلندرآباد سمیت علاقے میں انٹر نیٹ کیبل کا نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے، جس سے اس کو اچھی خاصی آمدن ہوتی تھی جب کہ اسی علاقے میں اس کے 4 گھر ہیں، جو اس نے کرایے پر دیئے ہوئے ہیں۔ ارشد بلوچ کے والدین کا انتقال ہو چکا ہے اور اس کی تقریبا 10 سال قبل دور کی رشتے دار صائمہ سے شادی ہوئی تھی ۔شہزاد کے مطابق وہ بچپن ہی سے اپنے چچا کو نشے کا عادی دیکھ رہا ہے۔ ارشد علی بلوچ روزانہ تقریبا 10 ہزار روپے کا نشہ کرتا ہے۔ 5 ہزار روپے کی تو صرف آئس خریدتا ہے جب کہ اس کے علاوہ تنزانیہ ، تریاک سمیت دیگر بہت سے نشے ہیں، جو وہ کرتا ہے ۔ ارشد علی بلوچ محلے میں کم ہی بیٹھتا تھا۔ زیادہ تر وہ علاقے سے باہر ہی دوستوں کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا ۔
بھتیجے شہزاد نے مزید بتایا کہ بدھ کی شام تقریبا ساڑھے 7 بجے ارشد نے اسے سلنڈر دیتے ہوئے کہا کہ اس میں گیس بھروا کر گھر پر دے دینا میں کسی کام سے جا رہا ہوں اس کے بعد وہ وہاں سے چلا گیا تھا ۔ سلنڈر میں گیس بھروا کر لایا اور گلی کے کونے پر اس کا بڑا بیٹا اشد مل گیا، جسے وہ سلنڈر دے کر دوستوں کے پاس موسمیات چلا گیا۔ وہاں سے آکر وہ اپنے گھر جا سو گیا تھا ۔ارشد علی بلوچ کے بھائی امداد علی بلوچ نے بتایا کہ واقعے کی اطلاع انہیں ان کے بھائی ارشد علی بلوچ ہی نے دی کیوں کہ وہ بچوں کے لیے صبح کا ناشتہ وغیر لے کر جب گھر پہنچا اور اس نے لاشیں دیکھ کر فوری طور پر اسے اطلاع دی ۔ جب وہ اپنے بھائی کے گھر پہنچے تو دروازے سے اندر گھستے ہی ایک بھتیجے کی لاش پڑی ہوئی تو اندر بھابی اور 2 بھتیجوں کی خون میں لت پت لاشیں پڑی ہوئی تھیں ۔
انہوں نے فوری طور پر اپنے بڑی بہن ، بڑے بھائی اور دیگر رشتے دار جو اسے علاقے میں رہائش پذیر ہیںکو اطلاع دی جب کہ مقتولہ صائمہ کے والدین جو اسی محلے میں رہائش پذیر ہیں انہیں بھی اطلاع دے دی۔صائمہ کے والد اور اس کے دونوں بھائی فوری طور پر موقع پر پہنچ گئے ۔ انہوں نے بتایا کہ نہ تو ان کی کس سے دشمنی ہے اور نہ ہی مالی پریشانی ہے جب کہ وہ لوگ اس علاقے میں گزشتہ 35 سے 40 سال سے رہائش پذیر ہیں۔ آج تک ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ۔پولیس حکام نے بتایاکہ اب جب کہ ملزم ارشد علی بلوچ کو باقاعدہ قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے تو اس سے آلہ قتل کی برآمدگی اور قتل کے بارے میں تفتیش کی جائے گی ۔