مانسہرہ (این این آئی)مانسہرہ کے علاقے کوہستان میں مقامی جرگے کے حکم پر ایک نوجوان لڑکی کو مبینہ طور پر قتل کر دیا گیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق افسوسناک واقعہ کی مقامی پولیس افسر نے تصدیق کی جبکہ واقعہ نے 2011 میں ملک کے اس خطے سے تعلق رکھنے والی پانچ لڑکیوں کی ہلاکت کی دردناک یادیں تازہ کردیں۔رپورٹ کے مطابق مانسہرہ سے تقریبا 150 کلومیٹر شمال مغرب میں کولائی پلاس میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی)مسعود خان نے بتایا کہ مقتولہ دو لڑکیوں میں سے ایک تھی جنہیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں مقامی لڑکوں کے ساتھ رقص کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ڈی ایس پی نے بتایا کہ مقتول کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے جائے وقوع سے قریبی مرکز صحت منتقل کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دوسری لڑکی کو پولیس نے اس کی جان کو لاحق خطرات کے پیش نظر اپنی تحویل میں لے لیا تھا لیکن ایک سینئر سول جج نے اسے اس کے والد کے ہمراہ گھر بھیج دیا جب کہ لڑکی نے اپنی جان کو لاحق خطرات کے خدشات کو مسترد کردیا تھا۔وائرل ویڈیوز میں نظر آنے والے لڑکے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے روپوش ہو گئے ہیں۔ڈی ایس پی مسعود خان نے کہا کہ بظاہر ایڈٹ کی گئی ویڈیوز اور تصاویر تین سے چار دن قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔پولیس افسر نے بتایا کہ مقامی روایت کے مطابق جرگے نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر میں نظر آنے والے نوجوانوں کو چورقرار دیتے ہوئے ان کے قتل کا حکم جاری کردیا تھا۔
پولیس اہلکار نے کہا کہ ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور مجرم جنہوں نے قتل کا حکم نامہ جاری کیا اور جن لوگوں نے اس پر عمل درآمد کیا ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔متاثرہ خاندان نے مقدمہ درج کرنے کے لیے پولیس سے رابطہ نہیں کیا، اس لیے ایف آئی آر کولائی پلاس تھانے کے ایس ایچ او نور محمد خان کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 109 ، 302 اور 311 شامل کی گئی ہیں، ایف آئی آر کے مطابق پوسٹ مارٹم سمیت لیگو میڈیکل کارروائیاں کولائی پالاس پولیس نے کیں۔اسی طرح کا ایک واقعہ ایک دہائی قبل بھی اسی علاقے میں پیش آیا تھا جبکہ 2011میں ڈانس کرنے والے لڑکے کے ہمراہ مقامی لڑکیوں کی خوشی منانے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں خواتین کو مبینہ طور پر مقامی جرگے کے حکم پر لڑکے کے چار بھائیوں سمیت قتل کر دیا گیا تھا۔مبینہ قتل نے عالمی توجہ حاصل کی تھی اور سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔