اسلام آباد(این این آئی)پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ اس کے پاس سوشل میڈیا پر آڈیو ریکارڈنگ لیک کرنے والے شخص کی شناخت کی صلاحیت موجود نہیں ۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی اے کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قابل اطلاق قوانین پی ٹی اے کو اس طرح کا کوئی دائرہ اختیار فراہم نہیں کرتے کہ وہ مبینہ آڈیو لیک کرنے والوں کی شناخت کر سکے۔عدالت میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں پی ٹی اے نے کہا کہ الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن 20 بدنیتی پر مبنی ضابطہ کے تحت کوئی متاثرہ شخص اتھارٹی سے کسی شخص کی ساکھ یا رازداری کو نقصان پہنچانے والا مواد بلاک کرنے کے لیے رابطہ کرسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانون نے پی ٹی اے کو یہ اختیار بھی دیا ہے کہ اگر اسلام، پاکستان کی سلامتی یا دفاع، امن عامہ، شائستگی یا اخلاقیات یا توہین عدالت کے حوالے سے مواد ہٹا سکتا ہے۔بتایا گیا کہ غیر قانونی مواد ہٹانے اور مسدود کرنے کے لیے پیکا کے تحت ریگولیٹڈ رولز غیر قانونی آن لائن مواد ہٹانا اور بلاک کرنا (طریقہ کار، نگرانی اور حفاظت)رولز 2021 ہے۔ان قوانین کے تحت درج کی گئی شکایات کا پہلے تجزیہ اور پھر منظوری دی جاتی ہے اور پھر مواد ہٹانے کے لیے سوشل میڈیا آپریٹر سے رابطہ یا ان کی خدمات کے خلاف تکنیکی کارروائی کے ذریعے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
پی ٹی اے نے وضاحت کی کہ سوشل میڈیا آپریٹرز درخواستیں بڑھانے کے لیے ریگیولیٹرز کو قانونی راستے فراہم کرتے ہیں، لیکن وہ بھی اپنی کمیونٹی گائیڈلائنزپر عمل کرتے ہیں، لہذا کوئی بھی درخواست جو ان گائیڈلائنز کے مطابق نہ ہو، اسے قبول نہیں کی جا سکتی۔تکنیکی کارروائی کے معاملے پر اتھارٹی نے کہا کہ ٹیلی کام آپریٹر کے سرور پر انٹرنیٹ ٹریفک کو تکنیکی وجوہات کی بنیاد پر مانیٹر کیا جاسکتا ہے کہ جیسا قابل بلاک مواد ہے، تاہم پلے میں ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہ اختیار محدود ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پیکا کا سیکشن 29 (ٹریفک ڈیٹا برقرار رکھنا)ایک تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کا اختیار دیتا ہے اور یہ کام سائبر کرائم ونگ کے ذریعے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)کو دیا گیا ہے۔