کراچی (این این آئی) عام لوگ اتحاد کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر قاضی فائز عیسیٰ کی تقرری ہی متوقع تھی لیکن جس نوعیت سے تقرری معرض وجود میں آئی وہ آئین و قانون تو ایک طرف اصولی طور پر بھی مناسب معلوم نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ آئین کی شق 175-A اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان (بشمول چیف جسٹس) کی تعیناتی سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس و دیگر جج صاحبان کی تقرری کی تجویز پاکستان جوڈیشل کمیشن کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں چیف جسٹس پاکستان، 4 سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، ایک سابق جج، وفاقی وزیر قانون و انصاف، اٹارنی جنرل پاکستان اور ایک سپریم کورٹ کا سینئر وکیل (از طرف پاکستان بار کونسل) اس کمیشن کے ممبران ہوتے ہیں۔
اس شق کی ذیلی دفعہ (3) میں کہا گیا کہ جب معاملہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کا ہو تو شق 175-A کے ابتدایۂ میں جو بھی کہا گیا ہو، چیف جسٹس کے عہدے پر تقرری سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہی کی ہوگی۔یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ اس تقرری کے سلسلے میں پاکستان جوڈیشل کمیشن یا پارلیمانی کمیٹی، جس سے ہوتے ہوئے معاملات وزیر اعظم کو جاتے ہیں، قطعاً غیر فعال ہو جائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ تقرری بے شک سینئر ترین جج کی ہو، مگر پاکستان جوڈیشل کمیشن و پارلیمانی کمیٹی کی جانچ کا یہ استحقاق کہ امیدوار ذہنی اور جسمانی طور پر کسی سقم کا حامل نہیں (وغیرہ) اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، ایک ذہنی یا جسمانی طور پر شدید مرض میں مبتلا شخص کا تقرر ہو ہی نہیں سکتا، خواہ وہ سپریم کورٹ کا سینئر ترین جج ہو۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس پس منظر میں صدر کی وزیراعظم کی سفارش پر چیف جسٹس کے عہدے پر تقرری آئینی طریقہ کار سے متجاوز ہی تصور کی جائے گی۔ بات یہاں نہیں رکتی کیونکہ اس طرح کی تقرریاں متعلقہ عہدہ خالی ہونے سے ہفتہ، پندرہ روز قبل کی جاتی ہیں کیونکہ ایک چیف جسٹس کی موجودگی میں نامزد چیف جسٹس کا ہونا انتظامی امور کے مانع آ سکتا ہے۔
خود موجودہ چیف جسٹس کی تقرری عہدہ خالی ہونے سے تقریباً 2 ہفتے قبل کی گئی تھی۔ لیکن کچھ مثالیں ایسی بھی ہیں جہاں بظاہر متعلقہ فرد سے قرب حاصل کرنے کیلئے وقت سے بہت پہلے عہدے پر تعیناتی کر دی گئی۔ ن لیگ کے ہی دور میں، جسٹس سعیدالزماں صدیقی کا چیف جسٹس کے بطور ایسے ہی تقرر ہوا تھا۔ بعد از ریٹائرمنٹ انہیں صدارت کیلئے نامزد کیا گیا اور زندگی کے آخری ایام میں وہ گورنر سندھ اْسی حکومت نے نامزد کیے۔ یہ اور اس طرح کی دیگر باتیں اس قول کو تقویت دیتی ہیں کہ آپ مقابلہ تو کریں لیکن اپنی ہی تجویز کردہ پچ اور اپنے ہی نامزد امپائروں کے ماتحت!