لاہور(این این آئی) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ پنجاب میں اینٹی نواز ووٹ بہت زیادہ ہے، پارٹی کے اندر رائے دی تھی کہ اگر پنجاب میں (ن) کی بجائے پی ٹی آئی سے اتحاد کیا جائے تو فائدہ ہوگا، استحکام پاکستان پارٹی میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو مشکل وقت میں جہانگیر ترین کے حق میں نہیں بولے تھے بلکہ وفاقی کابینہ میں جب میں نے انتقامی کارروائی کے خلاف بات کی تو یہ لوگ میرے مخالف ہو گئے تھے،
میں تین سال پہلے پی ٹی آئی کو چھوڑ چکا ہوں، اگر میں آج پی ٹی آئی کے ساتھ ہوتا تو موجودہ مشکل حالات میں کبھی نہ چھوڑتا اور جیل جانے کو ترجیح دیتا، سیاست میں اب کوئی کردار نہیں رہ گیا اور میں سنجیدگی سے سیاست کو خیر باد کہنے کا سوچ رہاہوں۔ ایک انٹر ویو میں ندیم افضل چن نے کہا کہ پنجاب میں اینٹی نواز ووٹ بہت زیادہ ہے اور وہ پی ٹی آئی کی طرف آئے گا،اگر پیپلز پارٹی کا مضبوط امیدوار ہوگا تو وہ پیپلز پارٹی کی طرف آئے گا۔
انہوں نے اپنے والد کی گرفتاری کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ میرے والد کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، وہ پندرہ سال پہلے سیاست چھوڑ چکے ہیں، میرا بھائی آزاد حیثیت میں جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہوا تھا۔ میرے والد اپنے سب بچوں وک کہتے ہیں سیاست چھوڑ دیں اس میں اب عزت والا معاملہ نہیں رہ گیا۔ ندیم افضل چن نے کہا کہ ایک پارٹی اجلاس میں پی ٹی آئی سے اتحاد کی بات کی تھی، میں نے کہا تھاکہ پنجاب میں (ن) لیگ کی بجائے پی ٹی آئی سے اتحاد کا زیادہ فائدہوگا۔
شاید ہو سکتا ہے سننے والوں نے یہ بات سن لی ہو اور وفاقی حکومت کو یہ بات نا گوار گزری ہو اور والد کی گرفتاری اس کا شاخسانہ ہو۔ میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں سیاست چھوڑ دوں۔سیاست میں اب کوئی ہدف نظر نہیں آرہا،اب جمہوریت اورقانون کی حکمرانی کے لئے کوئی بھی شخص اس طرح اپنا حصہ نہیں ڈال رہا جس طرح ڈالنا چاہیے۔۔ حکومت وقت کو گوارا نہ ہوئی ہو۔ عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اینتی نواز ووٹ ہے پی ٹی آئی کی طرف وہ پیپلز پارٹی کی طرف آئے گا۔
انہوں نے استحکام پاکستان پارٹی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میرا جہانگیر ترین سے احترام کا تعلق ہے،لیکن اس جماعت میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کی عوام کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں۔جب میں کابینہ میں شہزاد اکبر کے خلاف بولا تھا تو آج جتنے بھی جہانگیر ترین کے ساتھ ہیں وہ سارے الٹا میرے خلاف ہو گئے تھے اور کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا تھا،ان میں سے اکثریت نے جہانگیر ترین سے فائدے حاصل کئے، میں نے انتقام کا نشانہ بنانے کے خلاف بات کی لیکن ان میں سے اس وقت ایک بھی میرے ساتھ نہیں تھاجو آج استحکام کے لئے ان کے ساتھ کھڑے ہیں، اس وقت سب عدم استحکام کے ساتھ تھے۔
ندیم افضل چن نے کہا کہ انتخابات اکتوبر میں ہونے چاہئیں اور پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہوں،دوسری اتحادی جماعتوں کی خواہش ہے کہ یہ وقت پر نہ ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں نے تین سال پہلے پی ٹی آئی چھوڑ دی تھی، اگر آج پی ٹی آئی میں ہوتا تو ان حالات میں کبھی پارٹی نہ چھوڑتا اور جیل جانے کو ترجیح دیتا۔انہوں نے پرویز الٰہی کے حوالے سے کہا کہ ان کی عمر اور بیماریوں کو دیکھتے ہوئے ان کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے،
وہ میرے سخت مخالف ہیں میرے سر میں زخم بھی ان کے دئیے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود عدل ہونا چاہیے،سیاست میں رواداری رہنی چاہیے، اس وقت سیاست گندی ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ساری بیوروکریسی مسلم لیگ (ن) کی ہے، اضلاع تک ان کے افسران ہیں،پولیس افسران بھی ان کے لگائے ہوئے ہیں اور ان کے لئے ہدایات ہیں کہ صرف (ن) لیگ کے لوگوں کے کام کرنے ہیں،محسن نقوی بے بس ہیں وہ تگڑے وزیر اعلیٰ نہیں ہے، بیورو کریسی کی زیادہ چل رہی ہے کیونکہ وفاق میں (ن) لیگ کی حکومت اور ان کا بیورو کریسی کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔