اسلام آباد (این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے القادر ٹرسٹ کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے جاری کردہ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے درمیان تصفیہ کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔
انسداد بدعنوانی کے ادارے نے بشریٰ بی بی اور پی ٹی آئی سربراہ کو 7 جون القادر یونیورسٹی کی رجسٹریشن، عطیات اور دیگر تفصیلات سے متعلق دستاویزات کے ساتھ راولپنڈی آفس میں پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ سے حکومت پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
اپنے جواب میں بشریٰ بی بی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے بیورو سے درخواست کی تھی کہ وہ سماعت 8 جون کو منتقل کردے کیونکہ انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ اور انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہونا تھا۔اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہ وہ سخت پردہ کرتی ہیں بشریٰ بی بی نے کہا کہ وہ گزشتہ پیشی پر اسلام آباد اپنے شوہر کے ہمراہ آئی تھیں اور 8 جون کو بھی اپنے شوہر کے ہمراہ نیب میں پیش ہوں گی۔انہوں نے احتساب بیورو سے درخواست کی کہ وہ جمعرات کی نیب پیشی کو منتقل کر دے۔
بشریٰ بی بی نے کہا کہ القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ کو دیے گئے عطیات ’عطیات کی آڑ میں‘ نہیں تھے بلکہ یہ حقیقی عطیات ہیں جو صرف القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے فائدے کے لیے دیے گئے ہیں۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کی جانب سے دیے گئے تمام عطیات (بشمول زمین، عمارت، فنڈز وغیرہ) القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ کے خصوصی استعمال اور فائدے کے لیے ہیں، ٹرسیٹز سمیت کسی فرد کے کسی بھی طریقے سے استعمال یا فائدہ کے لیے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب کا فرض ہے کہ وہ ’ان سے مانگی گئی معلومات کی شناخت اور تفصیلات بتائے‘ اور ساتھ ہی اس کیس میں ان کی تفصیلات اور ان کے ملوث ہونے کے درمیان تعلق کو بھی بتائے۔سابق خاتون اول نے کہا کہ مجھے برطانیہ کی این سی اے اور ملک ریاض فیملی کے درمیان ہونے والی کارروائی سے متعلق یا مذکورہ کارروائی کے مطابق این سی اے اور ملک ریاض کے خاندان کے درمیان طے پانے والی شرائط یا فنڈز کی واپسی سے متعلق یا برطانیہ سے پاکستان فنڈز کی واپسی یا وفاقی کابینہ کی کارروائی اور اس کی جانب سے 3 دسمبر 2019 کو کیے گئے فیصلے کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک ریاض حسین یا ان کے خاندان کے کسی فرد/بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کی جانب سے مجھے یا جہاں تک میری معلومات کے مطابق کسی دوسرے ٹرسٹی کو ایسی کوئی زمین، نقد، تحفہ یا کوئی قیمتی چیز نہیں دی گئی تھی۔بشریٰ بی بی نے اپنے جواب میں وضاحت کی کہ ’براہ کرم نوٹ کریں کہ میں نے ٹرسٹ کو کوئی عطیہ نہیں دیا۔نیب کی جانب سے مانگی گئی دستاویزات کے حوالے سے بشریٰ بی بی نے کہا کہ وہ ٹرسٹ کے چیف فنانشل افسر کے پاس ہیں، جنہوں نے انہیں بتایا تھا کہ وہ 23 مئی کو ان دستاویزات کی مصدقہ کاپیاں نیب کے پاس جمع کرا چکے ہیں۔