لاہور(این این آئی)وفاقی وزیر ریلوے و ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ نیو یارک میں موجود روز ویلٹ ہوٹل کو 220ملین ڈالر کے عوض تین سال کی لیز پر نیو یارک کی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو دیدیا گیا ہے، اگلا کام شفافیت کے ساتھ ایڈوائزر کا تقرر کرنا ہے تاکہ اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے فارمولے پر چلایا جائے،
اسلام آباد،کراچی اور لاہور کے ائیر پورٹس کے آپریشن کو آؤٹ سورس کرنے کیلئے ورلڈ بینک کا ذیلی ادارہ انٹر نیشنل فنانس کارپوریشن کام کر رہاہے اور اس وقت تک امریکن، امارات، چائنیز اور ملائیشیا کی 20سے زائد کمپنیوں نے رابطہ کیا ہے، اگر پی آئی اے کو چلانا ہے تو اس کے لئے پرائیویٹ سرمایہ کاری لانا ہو گی، آؤٹ سورس کا مطلب ہرگز نجکاری نہیں ہے،
ان معاہدوں میں کوئی بھی ملازم بیروگار نہیں ہوگا،سابقہ حکومت کے ایک وزیر کے احمقانہ بیان کی برکت کی وجہ سے یورپی ممالک کے لئے پروازوں پر پابندی لگی جس سے سالانہ 71ارب روپے کا نقصان ہو رہاہے، پابندی ختم کرانے کے لئے بھرپور کوششیں جاری ہیں اور امید ہے جلد ہمارے روٹس بحال ہو جائیں گے۔ لاہور ائیر پورٹ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ امریکہ میں موجود روز ویلٹ ہوٹل پاکستان کا بہت ہی قیمتی اثاثہ ہے اور مختلف ادوار میں اس کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی رہی ہے۔
کورونا وباء میں اس کو بند کر دیا تھا اور اس وقت یہی راستہ تھا اور تب سے یہ ہوٹل بند تھا۔ بندش کے باوجود ٹیکسز اور ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں سالانہ 25ملین ڈالر کا خرچہ تھا جبکہ 20ملین ڈالر واجبات کی ادائیگی بھی ہونا تھی، وہاں کی یونین بہت طاقتور ہے، ان کے بھی 66ملین ڈالر کے معاملات طے ہونا باقی تھی۔ اس کے ساتھ یہ خدشہ بھی موجو دتھا کہ کہیں یہ لینڈ مارکنگ کی زد میں نہ آ جائے اور شاید پھر یہ ہوٹل نہ رہتا اور اسے بڑے پراجیکٹ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا جس سے اس کی قیمت بھی کم ہو جانا تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بہت سارے چیلنجز کا سامنا تھا، گزشتہ حکومت کی کابینہ نے ہوٹل کو پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے طور پر چلانے کا فیصلہ کیا لیکن وہ عمل نہیں کر سکے لیکن یہ فیصلہ درست تھا،پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد ہم نے سارے معاملات کا جائزہ لیا اور ہم خدا کا شکر ہے کہ ہمیں راستہ مل گیا ہے۔ حکومت پاکستان کا نیو یارک کی سٹی ایڈ منسٹریشن کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت تین سال کے لئے ہوٹل سو فیصد لیز پر دیدیا ہے،تین سال کے معاہدہ کے تحت پاکستان کو 220ملین ڈالر کی رقم ملے گی،
پہلے سال ہوٹل کا کمرہ202ڈالر، اگلے سال205اور اس سے اگلے سالے210ڈالر میں بک ہوگا، ہم نے 18دن میں 600کمرے ان کے حوالے کر دئیے ہیں اور اگلے تیس دن میں 1025سارے کمرے نیو یارک سٹی ایڈ منسٹریشن کو دیدیں گے۔انہوں نے کہاکہ اس معاہدے سے ہمارے واجبات بھی ادا ہو جائیں گے اور پاکستان کو آمدن بھی ملنا شروع ہو جائے گی اور یہ عمارت لینڈ مارکنگ کے خطرے سے بھی نکل آئی ہے، جب تک ہمارا کنٹریکٹ رہے گا یہ لینڈ مارک کے خطرے میں نہیں رہے گا۔ اگلا کام شفافیت کے ساتھ ایڈوائزر کا تقرر کرنا ہے تاکہ اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے فارمولے پر چلایا جائے،
اس وقت یہ 19منزلہ ہے اس کو 40منزلہ ہونا چاہیے، یہاں ہائی رائز ٹاور بنے، یہ قیمتی ترین قومی اثاثہ ہے جو بند پڑا ہوا تھا ہم نے اسے بچا کر کمائی والی جگہ پر کھڑا کر دیا ہے۔خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ اس ہوٹل میں 479ملازمین ہیں ان کا خرچہ سب سے زیادہ ہے ہے اور ان کے مطالبات بھی نا قابل یقین اور نا قابل بیان ہیں، اس کنٹریکٹ کے نتیجے میں صرف 77ملازمین بچیں گے اور باقی گھر چلے جائیں گے اور تین سال کے بعد جو بھی حکومت آئے گی وہ 77لوگوں سے ڈیل کر ے گی، 402 ملازمین کو وقت کے ساتھ ساتھ ادائیگی ہو گی، یہ قیاس آرائی یہ بند ہو گیا ہے اور فروخت ہو گا وہ ختم ہو جانی چاہئیں۔
خواجہ سعد رفیق نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے ملک کے تین ائیر پورٹس لاہور، کراچی اور اسلام آباد کی آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ کیا ہوا ہے، سب سے پہلے اسلام آباد ائیر پورٹ کے حوالے سے کام ہوگا، آؤٹ سورسنگ کا مطلب ہرگز نجکاری یا بیچنا نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص مدت کے لئے ائیر پورٹ کا آپریشن انٹر نیشنل آپریٹرز کے سپرد کیا جائے گا اور یہ پوری دنیا کی پریکٹس ہے، اس سے ہمار ے ائیر پورٹس کی ویلیو ایڈیشن کی ہو گی اور واپس پاکستان کو ملے گا، ائیر پورٹس کی پراپرپٹی ایک دن کے لئے کسی کے حوالے نہیں ہو گی، اس اقدام سے سول ایوی ایشن اتھارٹی کا کوئی بھی ملازم فارغ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں کسی بھی کمپنی کے پاس آؤٹ سورسنگ کاتجربہ نہیں تھا اس لئے حکومت پاکستان نے ورلڈ بینک کا ذیلی ادارہ انٹر نیشنل فنانس کارپوریشن سے معاہدہ کیا ہے جس کے لوگ اس پر کام کر رہے، اس نے دنیا میں بہت سے ائیر پورٹس کامیابی سے آؤٹ سورس کئے ہیں، ہم نے ویسے تو انہیں کچھ رقم دینی ہے لیکن زیادہ تر حصہ معاہدے کی کامیابی کی صورت میں دی جائے گی، یہ پراجیکٹ اپنے راستے پر چل پڑے گا اور ائیر پورٹس آؤٹ سورس ہوں گے، اس سے ہمارے ائیر پورٹس جدید ہوں اور ریاست نے جو پیسہ لگایا ہے وہ کا م بھی آئے، اس سے ہمارے مسافروں کوعالمی معیار کی سہولتیں بھی میسر آئیں گی،
بھارت کے ائیر پورٹس،ہیتھرو ائیر پورٹس،مدینہ منور ہ اوراستنبول کے ائیر پورٹس کے آپریشن آؤٹ سورس ہیں، کیا ہم نے دنیا میں پیچھے ہی رہنا ہے، کیا دنیا میں جو بہترین پریکٹس ہے ہم نے ان کی پیروی نہیں کرنی۔انہوں نے کہا کہ اس کے لئے گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ کا بھی آپشن تھا لیکن آئیڈیل راستہ یہی تھا کہ شفافیت سے ایڈ وائزر کا تقرر اور مقابلے سے بڈنگ ہوگی، انٹر نیشنل فنانس کارپوریشن سے 20سے زائد کمپنیوں نے رابطہ کیا ہے ان میں امریکن، ترکش،ملائیشین، چائنیز اور امارات کی کمپنیاں شامل۔خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ بنیادی طو رپر تین ائیر پورٹس کے رن وے اپ گریڈ ہو گئے ہیں،کوئٹہ ائیر پورٹ کے رن وے کو دوبارہ تعمیر کر دیاگیا ہے اور وہاں سے آپریشن شروع ہو گیا ہے،
اسی طرح فیصل آباد اور لاہور ائیر پورٹس کے رن وے کی بھی تعمیر نو ہو چکی ہے، ان پر 17ارب 30کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے، کراچی کے جناح انٹر نیشنل ائیر پورٹ کے لئے فنڈز موجود ہیں اور اس کی بھی تعمیر نو اور اپ گریڈیشن کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔سعد رفیق نے بتایا کہ اس سے پہلے کوئٹہ سے عازمین حج براہ راست سعودی عرب نہیں جاتے تھے بلکہ انہیں پہلے پاکستان کے دوسرے شہروں کا سفر کرنا پڑتا تھا تاہم پہلی دفعہ کوئٹہ سے براہ راست حج فلائٹس چل رہی ہیں۔ نیوگوادر انٹر نیشنل ائیر پورٹ تکمیل کے قریب ہے اور اس کے لئے ستمبر 2023 کی تاریخ مقرر ہے، یہ 51ارب روپے سے زیر تعمیر ہے جس میں سے34ارب روپے کی چائنیز گرانٹ بھی شامل ہے۔
سعد رفیق نے بتایا کہ نیسپاک سکھر ائیر پورٹ کو انٹر نیشنل ائیر پورٹ بنانے کے لئے کام کر رہاہے، دوسرا ڈی آئی خان ائیر پورٹ ہے،پرانا ائیر پورٹ وہیں رہے گا اور نیا گرین فیلڈ میں ائیر پورٹ بنے گا،پہلے ائیر پورٹ کے اطراف میں اتنی آبادی ہے کہ اس کی توسیع کی گنجائش نہیں اور یہ منصوبہ بہت مہنگا پڑے گا۔سعد رفیق نے پی آئی اے کے ملائیشیاء میں طیار ہ روکے جانے کے حوالے سے بتایا کہ ٹرپل سیون جہاز لیز پر ہے، کمپنی نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے پی آئی اے کو سنے بغیر ایکس پارٹی فیصلہ دے دیا، ہماری لیگل ٹیم نے فوری کام شروع کیا، میں نے بھی ملائیشیاء کے سفیر سے ملاقات کی اور انہیں حقائق سے آگاہ کیا،
الحمدا للہ 72گھنٹوں میں ہماری لیگل ٹیم نے عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لے لیا اور اور جہاز پاکستان آ چکا ہے اور اپنے آپریشن میں ہے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پی آئی اے پر کئی ارب روپے کا بوجھ ہے اور یہ اس بوجھ کے ساتھ نہیں چل پائے گا، یہ واضح ہے کہ اس کا کوئی علاج تلاش کرنا ہوگا اور اس پر ہم نے کام شروع کردیا ہے،ہم ایڈ وائزر کا تقرر کریں گے کیونکہ پی آئی اے کی ری سٹرکچرنگ کرنا پڑ ے گی، بظاہر لگتا ہے دو پی آئی اے بنانا پڑیں گی، ایک وہ ہے جس پر ماضی کا بوجھ ہے اور ایک نئی ہو گی جس پر کوئی بوجھ نہیں ہوگا اور اس میں پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری کو لانا ہوگا،
ائیر انڈیا ڈوب گئی تھی لیکن اسے اب ٹاٹا گروپ نے اٹھا لیا لیا ہے، ائیر انڈیا نے اب چار سے ساڑھے چار سو جہازوں کا آرڈر دیا ہے، ایمریٹس اور اتحاد نے پی آئی اے کی کوکھ سے جنم لیا وہ کہاں پہنچ گئے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔یہ طے ہے کہ پی آئی اے کو چلانا ہے تو پرائیویٹ سیکٹر کو لانا پڑے گا۔ ہم ان شااللہ ٹریک پر ڈال جائیں گے اور ایڈ وائزر آ جائیں جو بھی نئی حکومت آئے گی وہ آگے بڑھے گی اور ایک سے ڈیڑھ سال میں پی آئی اے میں جوہری تبدیلی نظر آئے گی۔خواجہ سعد رفیق نے سابقہ حکومت کے ایک وزیر کے احمقانہ بیان کی برکت کی وجہ سے یورپی ممالک کے لئے پروازوں پر پابندی لگی جس سے سالانہ 71ارب روپے کا نقصان ہو رہاہے۔
ہم یہ پابندی ختم کرانے کے لئے کئی ماہ سے کوشاں ہیں،ہم نے ساڑے آڈٹ کلیئر کر لئے ہیں،ایاسا سے بھی رابطہ کیا ہے، یورپی یونین میں متعلقہ اتھارٹی سے رابطہ کیا ہے، چند روز قبل برطانیہ ہائی کمشنر آئی ہوئی تھیں ان سے بھی اسی موضوع پر بات ہوئی ہے،برطانیہ کی کابینہ سپورٹ کر رہی ہے اوروہ بھی چاہتے ہیں روٹس کھل جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے یہاں کچھ قانون سازی ہونی ہے جس میں ائیر پورٹ اتھارٹی الگ ہو جائے گی اورسول ایوی ایشن اتھارٹی ریگولیٹری باڈی ہو جائے گی،جو مشکلات آ رہی تھیں اس کو کم رہے ہیں، ہمیں قانونی ساز تیار پڑی ہے، پہلے یو کے کی فلائٹس کھلیں گی اور اس کے بعد یورپ کے دیگر ممالک کی کی فلائٹس کی باری آئے گی۔
خواجہ سعد رفیق نے ائیر پورٹس کو آؤٹس سورس کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ریاستی ضرور ت کمپر و مائز نہیں ہو گی،جس کی ہمیں ضرورت وہ ہمارے پاس رہے گی۔انہوں نے سابق وفاقی وزیر ہوابازی کے بیان کے حوالے سے کہا کہ ان کا مینجمنٹ کے ساتھ بہت زیادہ تناؤ تھا، یہ ایک نفسیاتی بات تھی، پی ٹی آئی کا بیانیہ تھا صرف ہم پرہیز گار ہیں باقی سب چور ہیں،سیاسی مخالفین چور ہیں اور ان کے ادوار کے سول سرونٹس اورملازمین بھی چور ہیں، انہوں نے تسلسل کے ساتھ بے ڈھنگی گفتگو کی،جعلی ڈگریوں کی بات کی کہ سارے جعلساز ہیں،ہم صرف نیکو کار آگئے ہیں اب ہم نے سب کچھ بدلنا ہے،انہوں نے سارے پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کردیا، ان کا ہی بیانیہ تھاکہ ہم متقی ہیں باقی سب چور ہیں، بیوقوفوں والی جاہلانہ سوچ نے ہمیں یہاں لا کھڑا کیا ہے۔سعد رفیق نے کہا کہ ہر وقت گالم گلوچ نہیں ہوسکتی، جس نے جو کیا ہے وہ اس کو بھرے گا، پاکستان چوبیس کروڑ لوگوں کی ریاست ہے، یہاں ہر وقت صرف ایک پارٹی اورایک آآدمی زیر بحث نہیں آ سکتا۔