اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) بدھ کو ملک کے سیاسی منظر نامے پر فواد چوہدری گروپ کے غیر متوقع انداز سے ابھر کر سامنے آنے سے پی ٹی آئی میں کنفیوژن پھیل گیا ہے۔ صورتحال کو مکمل طور پر کھل کر سامنے آنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
تحریک انصاف حتیٰ کہ عمران خان کو چھوڑ کر نہ جانے والے پارٹی رہنماؤں کیلئے بھی 9؍ مئی کے بعد کے حالات شدید غیر یقینی کا شکار ہیں اور یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ عمران خان کو درپیش قانونی نوعیت کے نتائج سے کیسے نمٹا جائے۔
جنگ اخبار میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق عمران خان کے وفادار رہنماؤں کو ان کے نمایاں ووٹ بینک کا احساس ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے دی نیوز کو بتایا کہ اگر عمران خان کو نا اہل قرار دیدیا گیا تو نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی پارٹی کی قیادت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز خٹک کو بھی ایک آپشن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن کسی کو یقین نہیں کہ شاہ محمود اور پرویز خٹک کل کیا کریں گے۔
یہ لوگ نہ صرف سیاسی لحاظ سے بہت متحرک ہیں بلکہ مقتدر حلقوں کیلئے قابل قبول بھی ہیں۔ فواد چوہدری کی جانب سے بدھ کے غیر متوقع اقدام کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے کئی لوگوں کو حیرانی ہوئی کیونکہ ایک ہفتہ قبل ہی انہوں نے پی ٹی آئی کے دیگر دو رہنماؤں عمران اسماعیل اور محمود مولوی کے ساتھ پارٹی چھوڑ کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اڈیالہ جیل میں ان لوگوں نے شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اور اس کے بعد ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ 250؍ ملین پاکستانی عوام کو پی ڈی ایم کا حصہ سمجھی جانے والی سیاسی جماعتوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو موثر اپوزیشن کی غیر موجودگی میں کھیلنے کیلئے کھلا میدان نہیں دے سکتے۔ انہوں نے یہ بیان ایسے موقع پر دیا ہے جب ملک میں ایک نئی سیاسی پارٹی کے قیام کی افواہیں گرم ہیں، جس میں پی ٹی آئی چھوڑ کر جانے والے افراد شامل ہو سکتے ہیں۔
فواد کا کہنا تھا کہ قریشی سے ملاقات کے علاوہ انہوں نے پرویز خٹک، اسد عمر، اسد قیصر، فرخ حبیب، علی زیدی، حماد اظہر اور دیگر سے بھی بات کی ہے۔ یہ صورتحال غیر معمولی ہے کیونکہ قریشی کے صاحبزادے اور اسد قیصر خود کو فواد چوہدری سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ یہ لوگ کیا کھچڑی پکا رہے ہیں لیکن توقع ہے کہ صورتحال چند روز میں واضح ہو جائے گی۔ شاہ محمود اور پرویز خٹک دونوں میں کوئی حیران کن اقدام کرنے کی صلاحیت ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں (جن میں سے زیادہ تر گرفتاری سے بچنے کیلئے روپوش ہیں) کے ساتھ پس پردہ بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی میں بہت زیادہ کنفیوژن اور غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ہے۔
یہ صورتحال پی ٹی آئی میں موجود کئی لوگوں کو اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مختلف آپشنز پر غور کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ لوگ عمران خان کے ووٹ چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ مائنس عمران فارمولے کا نتیجہ کیا نکلے گا اور اس سے ان لوگوں کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔