لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس نے “جیو نیوز ” میں اپنے بلاگ میں اہم انکشافات کر دیئے۔ انہوں نے لکھا کہ
جسمانی، جنسی اور ذہنی تشدد سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔بدقسمتی سے خواتین سیاسی کارکنوں کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں کی زبانوں سے جو الفاظ ادا کئے جارہے ہیں وہ بذات خود تشویش ناک ہیں۔وہ شاید اس نزاکت کو سمجھ ہی نہیں پارہے۔ ہماری پوری پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کا کلچر ہی ایسا رہا ہے جہاں انسان کی عزت نفس سے کھیلا جاتا ہے۔ کسی کو بے لباس کرکے اس کی تصاویر اور ویڈیو بنانا، ماں کے سامنے بیٹی کو لاکرکھڑا کردینا ہی ایک پیغام ہوتا ہے۔ شہباز گل ہوں، اعظم سواتی ہوں یا ماضی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن ہوں ،ہم اس بہیمانہ نظام کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
مڈل کلاس اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں تو ہم ان کو مغرب زدہ کہہ کر ان کے ساتھ بدسلوکی کو اپنا فرض سمجھ لیتےہیں۔بیگم بھٹو کی تصاویر 1988کے جلسوں میں جہازوں سے گرائی جاتی ہیں کہ دیکھو یہ امریکی صدر کے ساتھ ڈانس کررہی ہیں۔ پھر مریم نواز کے ہوٹل کے کمرے میں چھاپہ رات گئے مارنا بھی اسی ذہینت کی عکاسی کرتا ہے۔ کردار بدلتے ہیں کہانی نہیں۔
مسئلہ کل اور آج کا نہیں، مرد اور عورت کا بھی نہیں قانون کی حکمرانی کا ہے،حکمرانوں کے قانون کا نہیں۔ ہمارے جید سیاستدانوں میں ایسے بھی ہیں جن کی زبان سے خواتین کے حوالے سے ایسے ایسے الفاظ سنے ہیں کہ یہاں بیان بھی نہیں کیا جاسکتا اور وہ جلسوں میں ادا کرتے شرماتے بھی نہیں ۔ ہمارا سیاسی بگاڑ اس حد تک بڑھ چکاہے کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا ہم کیا کہہ رہے ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں اور خواتین کی این جی اوز کو ان خبروں کی تحقیقات کرنی چاہئیں۔
سیاسی بگاڑ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہم نے اس کو دشمنی میں بدل دیا ہے اور سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ’ پروجیکٹ عمران خان‘ کا نام دینے والے ہمارے اصل حکمراں آج کل اس پروجیکٹ کو بند کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس میں کام کرنے والے ملازمین (کارکن اور لیڈروں) کو ’گولڈن ہینڈ شیک‘ دے کر گھر بھیجا جارہا ہے جو اپنی ملازمت (سیاست) جاری رکھنا چاہتے ہیں ان کیلئے کراچی تاخیبر جیلیں ہی جیلیں ہیں اور گمشدہ کہانیاں۔
حال ہی میں خود عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ یہ پروجیکٹ خود چلانا چاہتے ہیں اور ’مالکان‘ سے درخواست کی ہے کہ وہ جتنے بھی تحریک انصاف کے لوگوں کو لے جانا چاہتے ہیں لے جائیں۔خان صاحب کو بھی ’گولڈن ہینڈ شیک‘ آفر کی جانے والی ہے اگر وہ اسے قبول کرلیتے ہیں تو الیکشن وقت پر بھی ہوجائیں گے اور نتائج بھی مثبت آہی جائیں گے۔ نہیں مانے تو ان کی پارٹی کیلئے سیاسی پلٹن میدان‘ کھلا ہے پریس کانفرنس اور اعلانات کا سلسلہ جاری ہے کوئی سیاست چھوڑ رہا ہے کوئی پارٹی۔
عمران کی سیاسی غلطیوں کی لمبی فہرست ہے کس طرح انہوں نے اپنی پارٹی اور اپنے آپ کو مشکل میں ڈالا، ان کی سب سے بڑی کمزوری ان کا اپنا رویہ اور رعونت ہے۔ جن پر وہ اعتماد کرتے تھے جوان کو اپنی ’ریڈ لائن‘ کہتے تھے وہ سائیڈ لائن سے نکل گئے ہیں مگر اس سب کے باوجود ان کا مضبوط پوائنٹ الیکشن ہے جو دوسروں کا ویک پوائنٹ ہے۔ اس لحاظ سے ان کو اب بھی سیاسی برتری حاصل ہے۔ یہی وہ بیانیہ ہے جس کی وجہ سے زور زبردستی کرلیں تو الگ بات ورنہ ’پروجیکٹ عمران‘ ،مشکل سے بند ہوگا۔