اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی حامد میر اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ ہمارے دوست اور بھائی کامران شاہد کی فلم ’’ہوئے تم اجنبی‘‘ نے آج کل بڑی دھوم مچا رکھی ہے۔ بظاہر تو یہ رومانٹک کامیڈی فلم ہے لیکن 1971ء کے سانحے کے گرد گھومتی ہے جب پاکستان دولخت ہوا ۔کامران شاہد دنیا ٹی وی پر رات آٹھ بجے اپنا شو بھی کرتے ہیں لیکن انہوں نے اس فلم کی کہانی لکھنے اور پھر اسے ڈائریکٹ کرنے کیلئے کافی وقت نکال لیا ۔فلم میں ان کے والد اور ماضی کے سپر سٹار شاہد نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
بیٹے کی ہدایت کاری اور باپ کی اداکاری نے فلم کو انوکھا رنگ دیا ہے ۔پروڈکشن کے نکتہ نظر سے یہ فلم بہت اچھی ہے لیکن کچھ واقعات کی عکاسی کرتے ہوئے احتیاط نہیں کی گئی ۔میں تفصیل میں نہیں جائوں گا بڑے ادب سے اتنا عرض کروں گا کہ اس فلم کا براہ راست ہماری تاریخ کے ایک بڑے نازک موڑ سے تعلق ہے ۔
1971ء کے سانحہ مشرقی پاکستان کو نصف صدی گزر چکی لیکن فلم دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہم ابھی تک اپنی آئندہ نسلوں کےساتھ غلط بیانی کر رہے ہیں ۔مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ اس فلم کی تشکیل میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے بڑی دلچسپی لی جو بظاہر بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کیلئےلمبے لمبے لیکچر دیتے تھے لیکن انہیں کبھی بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کاخیال کیوں نہ آیا ؟سانحہ مشرقی پاکستان کی اصل تاریخ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں چھپی ہوئی ہے لیکن اس کمیشن کی رپورٹ کو نظر انداز کیا جاتا ہے کیونکہ اس رپورٹ میں جنرل رانی کا کردار ہمارا منہ چڑا رہا ہے ۔
فلم میں سہیل احمد، محمود اسلم، شفقت چیمہ، ثمینہ پیرزادہ، عائشہ عمر، شمعون عباسی، عدنان حیدر، علی خان اور میکال ذوالفقار سمیت دیگر فنکاروں نے بہت اچھی اداکاری کی ہے لیکن اگر اس فلم کو تاریخی حقائق سے کچھ قریب رکھا جاتا تو یہ فلم پاکستان اور بنگلہ دیش کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کر سکتی تھی۔
پیارے بھائی کامران شاہد سے گزارش ہے کہ آئندہ اس موضوع پر فلم بنائیں تو کہانی لکھنے سے پہلے مولوی تمیز الدین کیس کا مطالعہ کرلیں ۔انہیں پتہ چلے گا کہ جب پہلی دفعہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی توڑی گئی تو بنگالی اسپیکر مولوی تمیز الدین کو اپنی درخواست اعلیٰ عدالتوں تک پہنچانے کیلئے کیا کیاپاپڑ بیلنےپڑے لیکن ایک لاہور ی چیف جسٹس محمد منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کرکے قائد اعظم ؒ کے خوابوں کو ریزہ ریزہ کر دیا۔فلم ’’ہوئےتم اجنبی ‘‘ میں محمود اسلم نے شیخ مجیب الرحمان کا کردار ادا کیا ہے ۔
یہ وہی شیخ مجیب الرحمان تھے جنہوں نے 1965ء کے صدارتی الیکشن میں جنرل ایوب خان کے مقابلے پر قائداعظم ؒ کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کاساتھ دیا اور ان کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے ۔شیخ مجیب الرحمان نے ڈھاکہ سے محترمہ فاطمہ جناح کو جتوا دیا تھا لیکن کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں قائد اعظم ؒکی بہن جنرل ایوب خان کی دھاندلی کے سامنے ہار گئیں۔کامران شاہد کو وقت ملے تو جسٹس منیر کی کتاب ’’فرام جناح ٹو ضیاء‘‘ ضرور پڑھیں جس میں موصوف نے اعتراف کیا ہے کہ جب 1962ء میں وہ وفاقی وزیر قانون بنے تو انہوں نے جنرل ایوب خان کے حکم پر بنگالی سیاست دانوں سے پاکستان کی جان چھوڑ دینے کی استدعا کی لیکن بنگالیوں نے کہا کہ ہم پاکستان نہیں چھوڑیں گے تم پاکستان چھوڑ دو۔
اب تو ہمارے بزرگ احمد سلیم کی کتاب ’’میری دھرتی ،میرے لوگ‘‘ بھی شائع ہو گئی ہے۔ احمد سلیم ایک صحافی اور مورخ نہیں بلکہ پنجابی زبان کے شاعر بھی ہیں ۔1971ء میں انہوں نے بنگالیوں کے خلاف ملٹری آپریشن کی بھرپور مذمت کی اور اس آپریشن کے خلاف پنجابی میں نظم لکھی ۔وہ اپنی کتاب میں بتاتے ہیں کہ مارچ 1971ء میں میری نظم سامنے آئی تو مجھے گرفتار کرلیا گیا ۔انہیں گرفتار کیا جا رہاتھا تو ان کی چار سال کی بھانجی نے اپنی ماں سے پوچھا کہ پولیس نے ماموں کو کیوں پکڑ لیا ہے؟ماں نے بیٹی کو جواب دیا کہ تمہارے ماموں نے جنرل یحییٰ خان کے خلاف ایک نظم لکھی ہے ۔احمد سلیم کی بھانجی نے اپنی ماں سے کہا کہ ’’تو یحییٰ خان بھی ماموں کے خلاف نظم لکھ دیتا ، انہیں پکڑا کیوں؟‘‘ماں نے بیٹی کو جواب دیا کہ اگر یحییٰ خان کوئی نظم لکھ سکتا تو اپنے لوگوں کی نسل کشی کیوں کرتا؟احمد سلیم کی کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ اگر تلہ سازش کیس سے رہائی کے بعد شیخ مجیب الرحمن کراچی آئے تو جی ایم سید نے انہیں کہا کہ آغا غلام نبی، ایوب کھوڑو اور پیر علی محمد راشدی کو اپنی پارٹی میں شامل کرو۔شیخ مجیب الرحمان نے جواب میں کہا کہ یہ سب تو بڑے بڑے فیوڈل ہیں عوامی لیگ مڈل کلاس کی جماعت ہے مجھے سندھ کا مشہور شاعر شیخ ایاز اپنی پارٹی میں شامل کرنا ہے۔
کچھ عرصہ بعد شیخ مجیب الرحمان نے اپنے دوست قاضی فیض محمد کوشیخ ایاز کے پاس بھیجا اور پھر سندھ کے اس عظیم شاعر نے عوام لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر شیخ مجیب الرحمان پاکستان سے علیحدہ ہونے کا منصوبہ بنا چکے تھے تو پھر وہ سندھ کے شاعر شیخ ایاز اور پنجاب کے شاعر حبیب جالب کے دیوانے کیوں تھے؟
احمد سلیم کی کتاب میں بلوچستان کی صوبائی بے اختیاری کی کہانی کو بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔جس قسم کے دھوکے بنگالیوں سے ہوئے ویسے ہی دھوکے بلوچستان والوں سے ہوئے۔انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے نواب نوروز خان زرکزئی نے کالا پانی (جزائر انڈیمان) میں سزا کاٹی ۔پاکستان بن گیا تو خان آف قلات کی گرفتاری کے بعد مسلح مزاحمت شروع ہو گئی ۔85سالہ نواب نوروز خان بھی پہاڑوں پر چلے گئے۔
انہیں واپس لانے کیلئے بریگیڈیئر ریاض حسین نے ایک جرگہ بھیجا اور جرگے نے بوڑھے بلوچ سردار کو قرآن کا واسطہ دیا کہ پہاڑوں سے اتر آئو اور حکومت سے مذاکرات کرو۔بوڑھا بلوچ قرآن کے احترام میں نیچے آگیا لیکن اسے گرفتار کر لیا گیا ۔قلی کیمپ کوئٹہ اور مچھ جیل میں ان پرتشدد کیا گیا۔فوجی عدالت نے انکے بیٹوں اور ساتھیوں کو پھانسی دیدی اور 25دسمبر 1965ء کو وہ حیدر آباد جیل میں نوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے ۔وہ کوئی اجنبی نہیں تھے ایک مسلمان بزرگ تھے کیا ان کے ساتھ ناانصافی نہ ہوئی۔بنگالیوں کو بھی ناانصافی نے اجنبی بنایا اور آج بلوچوں کےساتھ بھی ناانصافی کی جا رہی ہے۔ناانصافی اپنوں کو اجنبی بناتی ہے۔ بلوچوں کےساتھ وہ نہ کریں جو بنگالیوں کے ساتھ کیا گیا۔