اسلام آباد (این این آئی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ پاکستان کی عدالتیں آزاد جموں کشمیر کے فیملی کیسز نہیں سن سکتیں۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی فیملی کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف دائر رٹ پٹیشن کی سماعت کرنے کے بعد جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
آزاد جموں کشمیر کے ایک خاندان بارے اسلام آباد کی فیملی کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کرنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی گئی تھی جس پر درخواست گزار وکیل خلیق الرحمن سیفی نے موقف اپنایا تھا کہ پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ 1951 کی دفعہ 14b کے تحت آزاد جموں کشمیر کے شہری کو پاکستان کا شہری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لئے پاکستان کی عدالتیں ان کے سول اور خاندانی معاملات سے متعلق مقدمات کی سماعت کے مجاز نہیں ہیںاس کے ساتھ ہائی کورٹ اسلام آباد کے 2016 میں ہونے والے ایک فیصلے کا حوالہ دیا جس کے تحت آزاد کشمیر کے شہری کے مقدمات پاکستان میں نہیں سنے جا سکتے۔ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کورٹ نے اسلام آباد کی ایک فیملی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا جس میں فیملی کورٹ نے نان نفقہ کی ذمہ داری ابرار نامی آزاد کشمیر کے شہری پر ڈالی تھی جس کے خلاف اس کی سابقہ بیوی نے مقدمہ درج کر رکھا تھا۔ (خیال رہے کہ میاں اور بیوی دونوں کا تعلق آزاد جموں کشمیر سے ہے) اور عدالت نے نان و نفقہ سے متعلق کیس کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے خاتون نسیم اختر کے حق میں یکطرفہ فیصلہ سناتے ہوئے نان و نفقہ کی ذمہ داری اس کے شوہر ابرار پر ڈالی جو نو لاکھ روپے تھی اور فیصلے پر عملدرآمد کیلئے ابرار کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کئے اور ابرار کو گرفتار کیا گیا جس پر ان کے وکیل نے ان کی ضمانت کرواتے ہوئے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی کہ پاکستان کی کسی عدالت کو آزاد جموں کشمیر کے شہری کے خلاف سوائے فوجداری جرم کے کوئی مقدمہ سننے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس پر ایڈیشنل سیشن جج نے ان کی اپیل خارج کر دی جس پر وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس کی سماعت جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کی اور دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو پیر کے روز سنایا گیا۔