منگل‬‮ ، 19 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

حدیبیہ کیس میں شہباز شریف کا ٹرائل کیا جاسکتا ہے، بابر اعوان کا دعوی ن لیگ کا بھی ردعمل آگیا

datetime 12  مئی‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(این این آئی)وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہا ہے کہ کیس پر نظرثانی نہ صرف جائز ہوگی بلکہ قانونی اور آئینی بھی ہوگی۔ایک انٹرویومیں انہوںنے کہاکہ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر کبھی ٹرائل نہیں ہوا، لہٰذا بدعنوانی کے مشہور ریفرنس میں انہیں نئی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔آئین کے آرٹیکل 13 کا حوالہ دیتے

ہوئے بابر اعوان نے وضاحت کی کہ ان دفعات میں شہباز شریف یا شریف خاندان کے کسی دوسرے فرد کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا جن سے پہلے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کیس میں تحقیقات یا ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی گئی تھی۔آرٹیکل 13 دوہری سزا کے خلاف تحفظ سے متعلق ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کسی بھی فرد کو ایک سے زیادہ مرتبہ ایک ہی جرم کی سزا نہیں دی جائے۔وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ اس طرح حدبندی جو ہمیشہ اپیل عدالتوں کے سامنے اپیلیں چلاتے وقت لاگو ہوتی تھی، مجرمانہ کیسز میں کبھی قابل قبول نہیں رہی لہٰذا اس سے شہباز شریف کو کوئی تحفظ نہیں۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو پرویز مشرف کی حکومت کے دوران شریف خاندان کے خلاف دائر حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں ملزم کی حیثیت سے کبھی بھی ضمانت نہیں دی گئی تھی۔بابر اعوان نے وضاحت کی کہ لہذا ان کا علیحدہ ٹرائل کیا جاسکتا ہے اور حکومت کسی بھی تحقیقاتی ایجنسی چاہے وہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) یا نیب ہو، سے

درخواست کرسکتی ہے۔انہوں نے کہاکہ اسی طرح فوجداری ضابطہ کی دفعہ 403 کے تحت تحفظ بھی شہباز شریف کو دستیاب نہیں تھا۔قانونی شق میں کہا گیا ہے کہ ایک بار سزا یافتہ یا بری ہونے والے افراد پر ایک ہی جرم کے لیے مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا ہے اور یہ کہ کسی بھی فرد کے خلاف عدالت میں کسی جرم کے تحت مقدمہ چلایا گیا ہو اور وہ اس جرم سے بری ہو گیا ہو تو اس کا اسی

جرم پر دوبارہ ٹرائل نہیں کیا جاسکتا۔بابر اعوان نے وضاحت کی کہ یہاں تک کہ اگر ایک کیس میں سیکڑوں افراد ملوث ہوں، ہر ملزم کے ساتھ الگ اور مختلف سلوک کیا جائے گا۔اسی طرح حکومت سے وابستہ ایک سینئر وکیل نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں منی لانڈرنگ کا الزام اور منی لانڈرنگ کے علاوہ کوئی اور الزامات ہیں جس معاملے کو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی کبھی عدلیہ

کے سامنے آیا، اور اس کی دوبارہ تحقیقات کی جاسکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو بھی کیا جائے گا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کیا جائے گا۔دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے موقف اختیار کیا کہ اس معاملے کی تازہ تحقیقات کا آغاز توہین آمیز اقدام ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف لاہور ہائیکورٹ نے اس کیس کو بند کردیا تھا بلکہ

سپریم کورٹ نے بھی نیب کی جانب سے دائر نظرثانی درخواست مسترد کردی تھی۔انہوں نے کہا کہ اس طرح معاملہ ایک بار طے ہوگیا تھا اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل یا نیب چیئرمین کیس کو دوبارہ کھول کر اعلی عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف نہیں جاسکتے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟


سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…