مکوآنہ (این این آئی )تاریخ کے آئینے میں اگر دیکھا جائے تو لاہور ریلوے اسٹیشن کے جنوب مشرق میں واقع مسجد دائی انگا کی شان و شوکت ویسے ہی برقرار، نقش نگاری کا کام بھی اپنی بہترہن حالت میں دکھائی دیتا ہے. مسجد صحن اور ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس کی دیواروں پر قرآنی آیات لکھی نظر آتی ہیں’ قاری محمد جہانگیر 22 سال سے مسجد میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں
بتاتے ہیں کہ یہ مسجد مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی دایہ دائی انگا کے اعزاز میں 1635 میں تعمیر کرائی تھی. جب شاہ جہاں ہندوستان کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنی دایہ کی خواہش پر لاہور میں ایک بہت بڑا غلامی باغ اور اس میں مسجد انگہ تعمیر کروائی.مسجد میں روایتی مغل طرز تعمیر کے مطابق صحن میں وضو کے لئے تالاب موجود ہے جو اب بھی بہتر حالت میں ہے. مسجد کی چھت ہر 3 بڑے گنبد اور 2 مینار ہیں. سکھ دور میں مسجد کو اسلحہ خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا،بعد میں ایک انگریز افسر مسٹر کوپ نے اسے اپنی رہائش گاہ بنا لیا. 1903 میں مسلمانوں کے شدید احتجاج کے بعد اسے مسلمانوں کو واپس دیا گیا.قاری محمد جہانگیر کا کہنا ہے کہ ایسے مقامات ہمارے تاریخی ورثے ہیں. حکومت کو چاہیے کہ ان کی دیکھ بھال کے لئے خاطر خواہ انتظامات کرے. مسجد کے مرکزی حصے کو بنیادی طور پر نیلے، سنتری، اور پیلے رنگ قانسی ٹائل کے کام سے سجایا گیا ہے. مسجد کے بیرونی حصے کو عمدہ ٹائل کے کام سے مزین کیا گیا ہے. اس مسجد کے معمار وزیر خان مسجد سے مشابہت رکھتے ہیں.380 سال بعد بھی محرابوں پر کانسی کا نہایت عمدہ کام، آیت قرانی اور خط نسخ میں درود شریف خوش خطی سے تحریر، ایسا کام جس کا دوبارہ ہونا ناممکنات میں تصور کیا جا سکتا ہے۔