اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور ہائی کورٹ نے 56؍ سویلین ملازمین کو الاٹ کی گئی تقریباً سات ہزار کنال فوجی زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی ہے اور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ مذکورہ زمین دو ماہ میں واپس لے کر جی ایچ کیو کی متعلقہ اتھارٹی کے کنٹرول میں دی جائے۔ یہ الاٹمنٹ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کی گئی تھی جسے 2010ء میں شہباز شریف
کی حکومت نے منسوخ کر دیا تھا تاہم موجودہ وزیراعلیٰ نے آرمی افسران اور بورڈ آف ریونیو کی اعلیٰ سطح کی کمیٹی کی سفارشات منظور کرتے ہوئے الاٹمنٹ ریگولرائز کر دی۔ اعلی سطح کی کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ اس معاملے کو ماضی کا قصہ سمجھتے ہوئے بند کر دیا جائے۔ لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری منیر احمد بنام حکومت پنجاب وغیرہ کیس میں فیصلہ سنایا ہے کہ
مذکورہ کمیٹی کی سفارشات کو وزیراعلیٰ نے منظور کیا تاہم کولونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈز (پنجاب) ایکٹ 1912ء میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ اس کام کیلئے وزیراعلیٰ مجاز ہیں کہ قیمتی سرکاری زمین کی نا اہل نجی افراد کو زمین الاٹ کر دیں۔ عدالتی فیصلے کے مطابق، درخواست گزار نے آئینی درخواست دائر کی تھی جس کے مطابق حکومت پنجاب نے تیس ہزار ایکڑ زمین فوجی اہلکاروں کو
الاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ابتدائی طور پر 2006ء میں ریونیو کی طرف سے ایک لاکھ ایکڑ زمین جی ایچ کیو کیلئے رکھی گئی تاکہ یہ زمین آرمی ویلفیئر اسکیم کے ذریعے فوجی اہلکاروں کو دی جائے۔ اس زمین میں سے بورڈ آف ریونیو، کالونی ڈپارٹمنٹ اور اریگیشن ڈپارٹمنت کے سویلین ملازمین اور افسران کو ان کے ناموں پر سرکاری زمینوں کے حصے الاٹ کر دیے گئے۔ فیصلے میں لکھا ہے کہ ،
سیکریٹری (کالونی)، بورڈ آف ریونیو پنجاب نے ڈسٹرکٹ افسر ریونیو مظفر گڑھ سے کہا کہ تیس ہزار ایکڑ سرکاری زمین کے حوالے سے معلومات فراہم کریں۔ متعلقہ ضلع کے ریونیو افسران سے زمین کی تفصیلات موصول ہونے کے بعد سیکریٹری (کالونیز اول)، سیکریٹری ٹوُ گورنمنٹ آف پنجاب، کالونیز ڈپارٹمنٹ نے 28 نومبر 2006ء کو میمو جاری کیا جس میں ایک لاکھ ایکڑ زمین جی ایچ کیو کے
حوالے کی گئی تاکہ آرمی ویلفیئر اسکیم کے ذریعے یہ زمین فوجی اہلکاروں کو دی جا سکے۔ یہ زمین مظفرگڑھ، خانیوال، بہاول نگر، قصور، راجن پور اور لیہ میں تھی۔ تاہم، پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس زمین کے کچھ حصے ریونیو، کالونیز اور اریگیشن ڈپارٹمنٹ کے 56؍ سویلین ملازمین اور افسران کو الاٹ کی گئی۔ بعد میں ڈی سی بہاولپور نے 22؍ مارچ 2010ء کو بورڈ آف
ریونیو پنجاب کو شکایت درج کرائی اور مذکورہ سویلین افسران اور ملازمین کو زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی۔ مذکورہ آرڈر کو کسی بھی مجاز فورم پر ختم یا منسوخ نہیں کیا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ سرکاری دستاویزات کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی الاٹی فوج سے تعلق نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی وہ کسی شہید کا وارث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان افراد
نے غلط بیانی اور ملی بھگت سے اور حقائق کو مسخ کرتے ہوئے زمین کی الاٹمنٹ حاصل کی اور سرکاری پراپرٹی کے حصول کیلئے فراڈ کیا۔ فیصلے کے مطابق، یہ زمین فوجیوں کیلئے تھی اور اسے کسی بھی سویلین افسر یا ملازم کو نہیں دیا جا سکتا۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ریونیو کے کچھ ملازمین نے اپنے نام پر یہ زمین پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الاٹ کرا لی، یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے
لیکن ان افراد نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھویا۔ وزیراعلیٰ کے آرڈر کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے سویلین افسران او ملازمین کو کی گئی زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کر دیا۔ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دو ماہ کے اندر زمین جی ایچ کیو کے حوالے کریں اور ڈپٹی رجسٹرار (جوڈیشل) کے ذریعے عدالت کو فیصلے کی تعمیل سے آگاہ کریں۔ عدالت نے سینئر ممبر کو یہ بھی ہدایت
کی ہے کہ فیصلے کے پیرا نمبر دس میں مختلف افراد کی جانب سے الاٹ کرائی گئی زمینوں کے معاملات کو بھی دیکھیں اور قانون کے مطابق کارروائی کریں۔ عدالت نے فیصلے کی نقل ممبر ریونیو بورڈ کو عمومی طریقہ کار کے ساتھ فیکس کے ذریعے بھجوانے کی بھی ہدایت کی۔ جن لوگوں کو عدالتی فیصلے سے چوٹ پہنچی ہے ان میں پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروسز (سابقہ ڈی ایم جی) کے چار سینئر افسران شامل ہیں جن میں احمد نواز سکھیرا (موجودہ کابینہ سیکریٹری) شامل ہیں
جنہیں خانیوال میں فوجی زمین سے 200؍ کنال زمین الاٹ کی گئی تھی۔ دیگر افسران کے نام یہ ہیں: اسپیشل سیکریٹری ایجوکیشن پنجاب ڈاکٹر فیصل ظہور، صوبائی سیکریٹری کے پی کے سید امتیاز شاہ، اس وقت کے ممبر کالونیز طارق یوسف اب ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن انہیں بھی 200؍ کنال زمین الاٹ کی گئی تھی۔ ایسے زیادہ تر افسران کا تعلق صوبائی انتظامیہ سے ہے اور پنجاب کی
موجودہ حکومت میں اہم عہدوں پر بیٹھے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سات ہزار کنال زمین جو غیر قانونی انداز سے سویلین افسران کو الاٹ کی گئی تھی، اس کا ڈی سی ریٹ تقریباً ڈھائی ارب روپے ہے جبکہ اس کی مارکیٹ پرائس پانچ ارب روپے ہے۔