پشاور(آن لائن) وفاقی حکومت نے ملک بھر میں کسی بھی نابالغ بچے کے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے چاروں صوبائی حکومتوں کو 10نکاتی سوالنامہ ارسال کرکے جوابات مانگ لئے ہیں۔ سیکرٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن کی جانب سے چاروں صوبائی حکومتوں کو دو صفحات پر مشتمل ایک مراسلہ ارسال کیا ہے
جس میں 10سوالات پوچھے گئے ہیں کہ نابالغ بچوں کیلئے کتنی عدالتیں قائم کی گئی ہیں؟ کتنے مقدمات میں ریاست کی جانب سے مالی معاونت کی گئی ہے؟پولیس کی حراست یا جیل میں نابالغ بچوں کو کس طرح رکھا جاتا ہیں؟ اس بات کی کبھی یقینی بنایا ہے کہ نابالغ بچے سے کم سے کم سب انسپکٹر سطح کے افسر کو تفتیش کی اجازت دی گئی ہو جس کی نگرانی ڈی ایس پی یا ایس پی سطح کے افسر کررہے ہیں؟ سیکشن10کے تحت اب تک کتنی جووینایل کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں؟کتنی جیلوں میں آڈیوسہولتیں ہیں جس کے تحت نا بالغ بچوں کو عدالتوں میں پیش کیا جاسکے؟کتنے افسران عدالتوں کی نابالغ بچوں کے کیس میں معاونت کرتے ہیں؟ کیا اس بات کی یقینی بنان گیا ہے کہ زیر حراست نابالغ بچوں کے کیس میں معاونت کرتے ہیں؟ کیا اس بات کو یقینی بنان گیا ہے کہ زیر حراست نابالغ بچوں کو قیدی قرار نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی ان کے ساتھ عام قیدیوں جیسا سلوک کیا جائے گا؟نا بالغ بچوں کی حراست کے دوران بحالی کے کتنے مراکز این جی او کے تحت کام کررہے ہیں؟ اور نا بالغ لڑکیوں کی دوران حراست بحالی کے کتنے مراکزقائم کئے گئے ہیں یہ تفصیلات ایک ہفتے میں طلب کی گئی ہیں۔