اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 48 وفاقی و صوبائی اداروں کے مالی انتظام، گورننس، آپریشنل و کنٹریکٹ مینجمنٹ اور خریداریوں میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کا سراغ لگا لیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق بورڈ آف ڈ ائریکٹرز، مستقل چیف ایگزیکٹو افسران کی عدم تعیناتی،ایل این جی ٹرمینلز کا کم استعمال،بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں
اور کے الیکٹرک سے مطلوبہ پی ٹی وی فیس نہ ملنے سے قومی خزانے کو اربوں روپے نقصان کا سامنا ہے ۔پی ٹی وی کی جانب سے سپورٹس کے حقوق کے حصول میں عدم شفافیت جبکہ پورٹ چارجز اور ڈیمرج کی ناقابل قبول ادائیگیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے 15مارچ 2021 تک مکمل کیے گئے آڈٹ سے متعلق وفاقی کابینہ کو آگاہ کردیا گیا ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو آرٹیکل170(2)کے تحت وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اداروں کے اکاونٹس کے آڈٹ کا اختیار حاصل ہے ۔ وفاقی و صوبائی اداروں کی تعداد 150ہے جن میں سے 85ادارے وفاقی جبکہ 65صوبائی ادارے شامل ہیں۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے 98وفاقی و صوبائی اداروں کے آڈٹ کا فیصلہ کیا گیا تھا جن میں 57وفاقی اور41صوبائی ادارے شامل تھے ۔15مارچ2021 تک 79وفاقی و صوبائی اداروں کا آڈٹ مکمل کیا گیاجن میں 46وفاقی اور33صوبائی ادارے شامل ہیں۔102سرکاری اداروں
کی جانب سے مالی سال2019-20کے اکاونٹس کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ چارٹرڈ اکاونٹنٹ کی جانب سے 33وفاقی اور 15صوبائی اداروں کا آڈٹ کیا گیا۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ آڈٹ کے اہل اداروں کی وجوہات میں مالی تفصیلات کا قانونی شرائط سے
مطابقت نہ رکھنا،ریکارڈ میں ناقابل وصول قرضوں کو قابل وصول قرار دینا،قابل وصول رقم کے تعین اور معینہ مدت کے تعین میں کمزوری،واجبات کو بین الاقوامی اکاونٹنگ معیار کے مطابق نہ تسلیم کرنا،بیلنس میں عدم مصالحت،امپیئرمنٹ لاس،تاخیر سے ادائیگی کے
سرچارج کو تسلیم نہ کرنا اور ایسٹ اکائونٹنگ پر عدم عملدر آمد شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق وفاقی کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ مالی انتظام میں مالی چارجز میں اضافے کے ساتھ مجموعی نقصان میں اضافے کے رجحان کی نشاندہی کی گئی۔سال2016-20کے دوران زرعی ترقیاتی بینک
کی جانب سے زرعی کریڈٹ ادائیگیوں میں کمی کی نشاندہی کی گئی۔رپورٹ میں تجارت میں اضافے اور واجب الادا رقم،مالی طور پر عدم استحکام کے مسائل اور نا قابل فہم سرمایہ کاری کی نشاندہی کی گئی۔رپورٹ میں گورننس اور مینجمنٹ کے مسائل کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے مو قف
اختیار کیا گیا کہ سرکاری اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز فعال نہیں ہیں جبکہ آزاد ڈائریکٹرز اور چیف ایگزیکٹو آفسیر کو تعینات نہیں کیا گیا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس کی کثرت،ڈائریکٹر کے سلیکشن کے معیار اور فیصلوں کے معیار پر سوالات
اٹھائے گئے ۔سوئی ناردرن اور سوئی سدرن کے درمیان آر ایل این جی تنازعہ کے حل میں ناکامی،قانونی معاملات میں طوالت اور پی ایس او کی سٹوریج کی صلاحیت کے معاملات حل نہ کرنے کے مسائل کی نشاندہی بھی کی گئی۔رپورٹ میں اداروں کی شفافیت کے حوالے سے موقف اختیار کیا
گیا کہ اکاونٹس کی تیاری میں تاخیر،گیس کنکشن کی فراہمی میں عدم شفافیت،زائد ادائیگیوں اور زرعی ترقیاتی بینک کی جانب سے قرض کے معاملات میں بینک فنڈ کے غلط استعمال کی نشاندہی کی گئی۔آڈیٹر جنرل آف پاکستا ن کی رپورٹ میں دستیاب کارگو سپیس کے عدم استعمال کے باعث پی آئی اے
کو ہونے والے نقصان کی نشاندہی کی گئی۔ہوائی جہازوں کی مرمت میں تاخیر کے باعث بھی پی آئی اے کو نقصان برداشت کرنا پڑا۔رپورٹ میں تیل اور گیس کی کمپنیو ں کے مسائل کی جانب بھی نشاندہی کی گئی۔تیل اور گیس کی کمپنیوں میں آف سپیک گیس کی فروخت،سٹوریج سہولیات میں اضافہ نہ کرنے ،پورٹ چارجز کی مد میں زائد ادائیگیوں،ٹرمینل کی صلاحیت کو پوری طرح سے استعمال نہ کرنے سے ہونے والے نقصان اور مستقل یو ایف جی نقصان کے مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی۔