اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، اینکر پرسن اور کالم نگار حامد میر روزنامہ جنگ میں اپنے کالم ”دھند اور دہشت کی شکست ” میں لکھتے ہیں کہ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن 10اپریل 2021کو ڈسکہ والوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ 19فروری کے دن ڈسکہ کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر تمام دن فائرنگ کی گئی تاکہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹر خوفزدہ ہو کر بھاگ جائیں اور ریاستی
مشینری آسانی سے اپنے امیدوار کو جتوا سکے۔ تمام دن فائرنگ سے کام نہ بنا تو پھر رات کو چھائی دھند سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ بیس سے زائد پولنگ اسٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسروں کو ایک جگہ پر اکٹھا کرکے انتخابی نتائج تبدیل کیے گئے اور حکمران جماعت کے امیدوار علی اسجد ملہی نے خود ہی اپنی کامیابی کا اعلان کر دیا لیکن الیکشن کمیشن نے نتیجہ روک لیا اور یہ تحقیق کی کہ بیس سے زائد پریذائیڈنگ افسران تمام رات کہاں غائب رہے؟ الیکشن کمیشن کو پتہ چل گیا کہ ان پریذائیڈنگ افسران نے نتائج تبدیل کئے تھے لہذا الیکشن کمیشن نے این اے 75میں دوبارہ ضمنی الیکشن کا اعلان کردیا۔ حکمران جماعت نے ایک طرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن کے خلاف ایک تقریر کر دی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک وزیراعظم نے الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام لگایا۔ سپریم کورٹ میں حکومت وقت نے الیکشن کمیشن کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن آخر کار حکومت وقت ہار
گئی اور سپریم کورٹ نے این اے 75میں ضمنی الیکشن کرانے کا فیصلہ برقرار رکھا۔10اپریل کو این اے 75میں حکمران جماعت کے علی اسجد ملہی جیت جاتے تو الیکشن کمیشن کی پوزیشن مشکوک ہو سکتی تھی لیکن صاحبزادہ افتخار الحسن شاہ کی بیٹی نوشین افتخار نے علی اسجد ملہی کو ہرا دیا۔ یہ صرف نوشین افتخار کی فتح نہیں تھی
بلکہ الیکشن کمیشن بھی سرخرو ہو گیا۔ ریاستی دہشت کے مقابلے پر ریاست کا قانون جیت گیا۔ 10اپریل کو ڈسکہ میں دھند نہیں تھی لیکن اقتدار کے نشے میں مست کچھ طاقتور لوگوں کے ذہنوں پر بدستور دھند چھائی ہوئی تھی۔ انہوں نے ایک دفعہ پھر اسلحے کی نمائش کے ذریعہ اپنی دہشت قائم
کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ دھند اور دہشت کو شکست دینے پر ڈسکہ کے بہادر لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ڈسکہ کے دیوانوں نے اس نواز شریف کے بیانیے کو ووٹ دیا جسے کچھ محب وطن لوگ آج کل غدار کہا کرتے ہیں۔