اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)جہانگیر ترین کیخلاف درج کیے گئے حالیہ مقدمے میں ایف آئی اے نے کسی دور میں وزیراعظم عمران خان کے دوست سمجھے جانے والے شخص کیخلاف 7.4 ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ کرکے رقم برطانیہ منتقل اور وہاں جائیدادیں خرید کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق ایف آئی اے
نے جہانگیر ترین اور ان کی کاروباری کمپنیوں کیخلاف مقدمات قائم کیے ہیں۔ ان میں سے ایک ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ 2011-12 کے دوران جب فاروق پلپ ملز لمیٹڈ (ایف پی ایم ایل) کے اکائونٹس میں جعلی سرمایہ کاری کی رقم جمع کی جا رہی تھی اس وقت جہانگیر ترین، علی خان ترین اور خاندان کے دیگر ارکان نے لاہور میں اوپن مارکیٹس سے منظم انداز سے ہر دستیاب ڈالر خرید لیا اور اس مقصد کیلئے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی نظر میں نہ آنے والی حد تک کی خریداری کی گئی، یہ حد 35 ہزار ڈالرز ہے اور اسی لیے یہ پکڑ میں نہیں آتی۔ نتیجتاً، 2016 میں علی خان ترین نے تقریبا ً7.4 ملین ڈالرز کی رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے برطانیہ بھیجی جہاں جائیداد خریدی گئی (اس حوالے سے مفصل انداز سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے)۔ اس اقدام کی وجہ سے ان لوگوں کیخلاف اینٹی منی لانڈرنگ کے قانون کی شق تین اور چار کے تحت تحقیقات جاری ہیں۔ یہ ایف آئی آر 22 مارچ کو درج کی گئی ہے۔ ایک سرکاری ذریعے
نے دعویٰ کیا ہے کہ ایف بی آر پہلے سے ہی اس کیس کا جائزہ لے رہا ہے اور جہانگیر ترین کو 1.4 ارب روپے کی ادائیگی کا نوٹس بھیج چکا ہے۔ اس نوٹس کیخلاف جہانگیر ترین نے عدالت سے حکم امتناع لے رکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لندن کی جائیدادیں ایمنسٹی اسکیموں میں افشا
کی جا چکی ہیں لیکن ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ چونکہ جہانگیر ترین کا خاندان سیاسی حیثیت کا حامل ہے اس لئے وہ اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا ،کہا جاتا ہے کہ ایمنسٹی اسکیم جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین نے حاصل کی تھی۔ درج کردہ ایف آئی آرز میں سے ایک میں الزام عائد کیا
گیا ہے کہ جہانگیر خان ترین نے پبلک شیئر ہولڈرز میں خرد برد کی اور اس میں فراڈ کیا، اس فراڈ اسکیم میں جہانگیر خان ترین کی پبلک لمیٹڈ کمپنی جے ڈبلیو ڈی نے ایسوسی ایٹڈ پرائیوٹ کمپنی (ایف پی ایم ایل گجرات – جس کے مالک علی ترین اور قریبی رشتہ دار ہیں) کے اکائونٹ میں
3.4 ارب روپے منتقل کیے۔ خصوصاً مالی سال 2011-12 کے بعد منتقل کی گئی رقوم پیٹنٹ کے لحاظ سے جعلسازی پر مبنی سرمایہ کاری تھی جن سے بالآخر جے ڈبلیو ڈی کے چیف ایگزیکٹو افسر کے خاندان کے ارکان نے نجی فائدے حاصل کیے۔ ایف آئی آر میں مزید لکھا ہے
کہ ایف پی ایم ایل میں کسی بھی کاروباری سرگرمی کے بغیر، جہانگیر ترین مستقل جے ڈبلیو ڈی کے فنڈز ایف پی ایم ایل کے اکائونٹس میں 2015 کے آخر تک منتقل کرتے رہے اور اس کے علاوہ اضافی 1.10 ارب روپے بھی ایف پی ایم ایل کے اکائونٹس میں منتقل کیے گئے۔ ایف آئی آر
کے مطابق، جے ڈبلیو کے فنڈز ایف پی ایم ایل کے اکائونٹس میں منتقل کرنا فراڈ تھا کیونکہ جے ڈبلیو ڈی نے اس کمپنی کے ایڈوانس اور سرمایہ کاری کو نقصان میں ظاہر کیا۔ ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ مالی سال 2011-12 میں ایف پی ایم ایل کے پلانٹس بند ہوگئے، لیکن اس کے باوجود
جے ڈبلیو ڈی کی 2009-10 کی سرمایہ کاری کو نقصان کے طور پر ظاہر کرنے کا معاملہ منظم انداز سے 2015 تک موخر رکھا گیا تاکہ جے ڈبلیو ڈی کے فنڈز کو 2015 تک ایف پی ایم ایل کے اکائونٹس میں منتقل کیا جاتا رہے، یہ کمپنی کوئی کاروبار نہیں کر رہی تھی۔
جہانگیر ترین اور ان کی کاروباری کمپنیوں کیخلاف ایک اور ایف آئی آر میں ایف آئی اے نے الزام کرتے ہوئے جہانگیر خان ترین کی جانب سے پبلک شیئر ہولڈرز کے پیسوں میں خرد برد کی منظم اسکیم کا پتہ لگانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس اسکیم میں جے ڈبلیو ڈی کے اکائونٹس سے
(اکتوبر 2017 تا مارچ 2020) فراڈ کے ذریعے 2.2 ارب روپے نکالے گئے اور اس کیلئے قابل بھروسہ کیش رائیڈر امیر وارث کی خدمات حاصل کی گئیں، یہ شخص جے ڈبلیو ڈی کارپوریٹ ہیڈ آفس لاہور میں کیشئر ہے۔ ایف آئی آر میں ایک جعلی اکائونٹ کا بھی بھانڈا پھوڑا گیا ہے جس
میں مجموعی طور پر 5.8 ارب روپے کی رقم (2008 تا 2013) مختلف ذرائع سے جمع کرائی جاتی رہی، اس کیس میں کریڈٹ ٹرانزیکشن میں جے فارمنگ لمیٹڈ (26 ملین روپے)، جے کے ڈیریز پرائیوٹ لمیٹڈ (25 ملین روپے) اور اے ایف ٹی مینگو / علی ترین فارمز (14 ملین روپے) کمپنیاں ملوث بتائی گئی ہیں۔