اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) میرے ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حفیظ شیخ کو وزیرخزانہ بنوانے میں جہانگیر ترین کا بڑا ہاتھ تھا۔ ترین کا طاقتور لوگوں سے رابطہ تھا جو اس ملک کے فیصلے کرتے ہیں۔ سینئر کالم نگار رئوف کلاسرا اپنے کالم ’’واردات اور وارداتیے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔اسد عمر کے بعد وزیرخزانہ کی تلاش شروع ہوئی تو اس وقت شوکت ترین کا نام سامنے آیا۔
جہانگیر ترین اور دیگر چاہتے تھے کہ شوکت ترین کو لایا جائے۔ شوکت ترین اس سے پہلے پیپلز پارٹی دور میں بھی وزیرخزانہ کے طور پر کام کرچکے تھے۔ ان کی قابلیت پر کسی کو شک نہ تھا اور اس نام پر سب تیار بھی تھے لیکن شوکت ترین خود تیار نہ ہوئے۔ یوں قرعہ ٔفال حفیظ شیخ کے نام نکلا جو جہانگیر ترین کے ساتھ شوکت عزیز کی کابینہ میں کام کرچکے تھے۔ حفیظ شیخ بڑے سمجھدار آدمی ہیں‘ انہیں پتہ ہے کہ اس ملک میں کون طاقتور ہے اور کس کے ساتھ بنا کر رکھنی ہے۔ اب سوال یہ ہے کیا حفیظ شیخ کے ہٹنے سے مہنگائی کم ہوگی یا معاملات ٹھیک ہو جائیں گے؟ یہ انسانی نفسیات ہے کہ وہ تبدیلی کے نام پر چکر میں آجاتے ہیں۔ گھر کے پردوں کا رنگ ہی بدل دیں تو بھی کئی دن نیا پن محسوس ہوتا ہے۔ اس طرح اگر کچھ نام بدل دیے جائیں یا انہیں ہٹا کر کوئی نیا چہرہ لایا جائے تو لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ شاید اب کچھ نیا ہوگا‘ کچھ بہتر ہوگا۔ دوسرا حکومت کو کچھ وقت مل جاتا ہے کہ وہ لوگوں اور میڈیا کو بتا سکتی ہے کہ دیکھیں نیا بندہ آیا ہے اسے کچھ وقت تو دیں۔ پھر ساتھ میں پرانے بندے کو سزا دینے کا تاثر بھی چلا جاتا ہے جس سے عوام خوش ہوجاتے ہیں۔ لوگ پرانے سکینڈلز بھی بھول جاتے ہیں۔ عوام کو اپنے دکھوں کے مداوے کے لیے کچھ تو چاہیے‘ وہ اس پر بھی خوش ہوجاتے ہیں کہ جس وزیر نے ان پر مہنگائی کا بم دے مارا تھا وہ اب کابینہ میں نہیں رہا۔
اب اس وزیر نے خود اور اپنے دوستوں کو کیا کھلایا پلایا اس کی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ ابھی ندیم بابر کو دیکھ لیں کہ ایک طرف ہمیں کہا جارہا ہے کہ اربوں روپے کا آئل سکینڈل ہوا یا دوسرے لفظوں میں پٹرول کرائسس کی شکل میں اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکال لیے گئے لیکن ساتھ یہ بھی مسلسل کہا جارہا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ندیم بابر پر کوئی الزامات ہیں۔ حکومت فرما رہی ہے کہ
ندیم بابر صاف اور شفاف ہیں۔ بھئی اگرصاف اور شفاف ہیں تو پھر ان اربوں روپے کے سکینڈلز کا ذمہ دار کون ہے جن کا انکوائری رپورٹ میں ذکر ہے؟ عوام کی جیب سے یہ اربوں کون نکال لے گیا؟ اگر ندیم بابر اس کے ذمہ دار نہیں تو پھر کون ہے ؟ یہ وہ باریک واردات ہے جس پر سب خوش ہیں۔ عوام بھی خوش ہیں کہ جس کی وجہ سے ان کے اربوں روپے جیب سے نکل گئے وہ اب کرسی پر نہیں رہا‘
حکومت خوش ہے کہ کوئی اس سے نہیں پوچھ رہا کہ اگر ندیم بابر کو آئل کرائسس کی وجہ سے نہیں نکالا گیا تو پھر کیوں نکالا؟ اگر وہ ان اربوں روپے سکینڈل کے ذمہ دار ہیں تو پھر ان پر ایف آئی اے یا نیب نے مقدمہ کیوں درج نہیں کیا ؟ اندازہ کریں ایک طرف مان لیا گیا ہے کہ اربوں روپے کا سکینڈل ہوا ہے اور دوسری طرف کہا جارہا ہے کہ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں۔ شاید عوام کا قصور ہے جو پٹرول پمپس پر پٹرول لینے گئے تھے۔یہ ایسی واردات ہے جو اتنی ہوشیاری سے کی جاتی ہے کہ بڑے بڑے وارداتیے بھی اس کو نہ پکڑ سکیں‘اُلٹا انہی عوام سے داد وصول کی گئی جن کی جیبوں سے آئل بحران کے نام پر اربوں روپے نکال لئے گئے تھے۔