اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک، این این آئی )سینیٹ کی 51 نشستوں پر انتخابات اوپن بیلیٹنگ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی ڈکٹیٹرشپ میں اضافہ کرے گی اور ان کے جوڑتوڑ کرنے کی طاقت بڑھائے گی،اگر خفیہ رائے شماری کو ختم کیا جاتا ہے تو اس کے تمام تر فوائد سیاسی جماعتوں کے
سربراہوں کی جیب میں جائیں گے،اس لئے پی ڈی ایم نے غیر رسمی طورپر باہمی رابطوں میں فیصلہ کیا ہے کہ اوپن بیلیٹنگ سسٹم کی مخالفت کرے گی،روزنامہ جنگ میں صالح ظافر کی شائع خبر کے مطابق پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی ملاقات اگلے ہفتے ہوگی تاہم آج اسمبلی اور سینیٹ میں آئینی ترمیم کے شروع ہونے سے قبل ہی ملاقات کریں گے،اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے سربراہ،میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے بھی رہنمائی لی جائے گی،واضع رہے کہ حکومت سینیٹ کی 51 سیٹوں پر انتخابات سے قبل انتخابی عمل میں تبدیلی کی خواہاں ہے۔دوسر ی جانب سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ پیپر کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرسپریم کورٹ میں سماعت کل ہوگی، تفصیلات کے مطابق سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کل کر ے گا۔اٹارنی جنرل
اور صوبائی حکومتوں سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر دئیے گئے، واضح رہے کہ پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان حکومتیں اوپن بیلٹنگ کی حمایت کر چکی ہیںتاہم سندھ حکومت کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی ہے۔سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی اور
جماعت اسلامی پاکستان نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کی ہے، الیکشن کمیشن نے بھی صدارتی ریفرنس کی مخالفت کی ہے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے کہا تھا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہی ہوتے ہیں، آئین کے آرٹیکلز 59، 219 اور 224 میں سینیٹ
انتخابات کا ذکر ہے۔جواب میں کہا گیا کہ آرٹیکل 226 سے واضح ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے سوا الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہوں گے، آئین میں کل 15 انتخابات کا ذکر ہے، آئین پاکستان اوپن بیلٹ کی اجازت نہیں دیتا، آئین میں صرف وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے انتخابات کو ہی اوپن کیا گیا ہے۔