اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر کالم نگار جاوید چودھر اپنے کالم ’’ایک غلط گیند‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ہم اب میاں نواز شریف کی طرف آتے ہیں‘ میاں نواز شریف میں تین حیران کن خوبیاں اور تین خوف ناک خامیاں ہیں‘ ہم پہلے خوبیوں کی بات کرتے ہیں‘ یہ پروڈویلپمنٹ ہیں‘ پاکستان کی تاریخ میں تمام بڑے منصوبے ایوب خان کے دور میں شروع ہوئے یا پھر میاں نواز شریف کے زمانے میں سٹارٹ ہوئے‘
آپ موٹروے سے لے کر سی پیک تک تمام بڑی فائلیں کھول لیں‘ آپ کو اس میں نواز شریف ملیں گے‘ آپ آج بھی نواز شریف کو لے آئیں آپ کو دو ماہ میں ڈوبتی معیشت تیرتی نظر آئے گی‘ دوسرا میاں نواز شریف میں سیکھنے کی اہلیت ہے‘ آپ 1985ء کا نواز شریف دیکھ لیں اور 2018ء کا نواز شریف دیکھ لیں‘ یہ سٹیٹ کرافٹ میں زیرو تھے لیکن انہوں نے حکومت کاری بھی سیکھی اور بڑے بڑے مہروں کو مات بھی دی اور تیسری خوبی یہ اللہ تعالیٰ سے کوئی خصوصی مقدر لے کر آئے ہیں‘ آپ کو پوری دنیا میں نواز شریف جتنا خوش نصیب سیاست دان نہیں ملے گا‘ 1985ء میں سیاست میں آنا اور پھر خوف ناک مخالفتوں کے باوجود تین بار وزیراعظم بن جانا اور پھر جیلوں سے نکل کر جہازوں پر بیٹھ کر ملک سے باہر چلے جانا اور پھر واپس آنا اور آتے ہی پروٹوکول کے ساتھ ایوان اقتدار میں پہنچ جانا‘ قدرت یہ خوش نصیبی بہت کم لوگوں کو عطا کرتی ہے‘ اللہ کو شاید ان کی سادگی‘ عاجزی اور شائستگی پسند ہے‘ ان تینوں خوبیوں کے ساتھ ان میں تین خامیاں بھی ہیں اور یہ جب تک ان خامیوں کو ’’اپنڈیکس‘‘ کی طرح کاٹ کر باہر نہیں پھینکتے یہ اس وقت تک اسی طرح سیاسی گرداب میں پھنسے رہیں گے‘ ان کی پہلی خامی خاندان ہے‘ یہ اقتدار کو اپنے خاندان تک رکھنا چاہتے ہیں‘ یہ آج بھی اپنے خاندان کے لیے ’’بارگین‘‘ کر رہے ہیں‘ اس خامی نے پارٹی میں چودہ لیڈر اور چودہ ہی بیانیے پیدا کر دیے ہیں اور پارٹی کو سمجھ نہیں آ رہی اس نے کس کی پیروی کرنی ہے اور شریف خاندان کے کس فرد کے ساتھ تعلقات استوار کرنے ہیں‘ یہ بے چارے میاں نواز شریف سے لے کر جنید صفدر تک سب کو خوش رکھ رکھ کر تھک گئے ہیں‘ میرا دعویٰ ہے میاں نواز شریف آج اپنے پورے خاندان کو سیاست سے نکال دیں اور یہ اعلان کر دیں میں صدر بنوں گا اور نہ وزیراعظم اور نہ میرے خاندان کے کسی شخص کا
سیاست سے تعلق ہو گا اور یہ اس کے بعد پارٹی کے چیئرمین بن جائیں اور پارٹی کو حکومت کرنے کا موقع دے دیں‘ آپ یقین کریں یہ شخص ملک کا مقدر بدل کر رکھ دے گا لیکن بدقسمتی سے نواز شریف سیاست میں جو بھی مہرہ کھیلتے ہیں یہ اپنے آپ اور اپنے خاندان کو سامنے رکھ کر کھیلتے ہیں اور ان کی اس کم زوری کی سزا ملک اور خاندان دونوں بھگت رہے ہیں‘ مولانا فضل الرحمن نواز شریف کی
اس اپروچ کے تازہ ترین شکار ہیں‘ میاں صاحب کی للکار اور پھر خاموشی نے مولانا کو گرداب میں پھنسا دیا ہے چناں چہ پی ڈی ایم اگر سینیٹ کے الیکشنز تک حکومت نہیں گرا پاتی تو حکومت مارچ تک مولانا پر کریک ڈائون کر دے گی اوریہ بھی میاں شہباز شریف کی طرح اپنے خاندان سے نیب عدالت میں ملاقات کیا کریں گے اور اس کے ذمے دار نواز شریف ہوں گے‘ دوسرا میاں نواز شریف میں بے انتہا ضد ہے‘ فوج کے ساتھ ان کی دوریاں 1992ء میں شروع ہوئیں‘ یہ اس وقت سے بار بار مار کھاتے آ رہے ہیں
اور ہر بار واپس آ کر دوبارہ کیلے کے چھلکے پر پائوں رکھ دیتے ہیں‘ فوج ملک کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور آپ جب تک اس حقیقت کو حقیقت نہیں مانتے آپ ملک میں حکومت نہیں کر سکتے مگر میاں صاحب بار بار یہ حقیقت فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ یہ ہر بار دوچار بڑے کارنامے سرانجام دینے کے بعد پاور سیکٹر کے اعصاب کا جائزہ لینا شروع کر دیتے ہیں اور تیسری خامی میاں نواز شریف آج تک لڑائی یا صلح کا فیصلہ نہیں کر سکے ‘یہ ایک طرف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے ہیں اور دوسری طرف لندن جا کر بیٹھ جاتے ہیں‘ یہ ’’اب مذاکرات نہیں ہوں گے‘‘ کا اعلان بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف مذاکرات بھی جاری رہتے ہیں‘ شاہد خاقان عباسی پیغام لے کر جاتے ہیں اور پیغام لے کر واپس آتے ہیں‘ یہ کیا ہے؟ یہ جب تک لڑائی یا صلح کا فیصلہ نہیں کرتے یہ اسی طرح گرداب میں پھنسے رہیں گے ۔