اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ونڈ آئی پی پیز سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کا معاملہ خطرے سے دوچار ہوگیا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار حکومتی یقین دہانی کے بغیر مفاہمتی یادداشت پر دستخط سے کترارہے ہیں۔ روزنامہ جنگ میں خالد مصطفی کی شائع خبر کے مطابق ہوا سے بجلی بنانے
والی آئی پی پیز کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کا معاملہ خطرے میں پڑگیا ہے۔ حکومت نے عارضی طور پر ونڈ پاور پلانٹس کے ساتھ جاری مذاکرات روک دیئے ہیں کیوں کہ غیرملکی سرمایہ کار نئے معاہدے پر دستخط کرنے سے کترارہے ہیں۔ آئی پی پیز سے مذاکرات میں شریک ایک سینئر عہدیدار نے بتایا ہے کہ ہم نے ونڈ آئی پی پیز سے کہا ہے کہ وہ پہلے غیر ملکی سرمایہ کاروں سے مشورہ کرے اس کے بعد مذاکرات کا آغاز کیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی 47 آئی پی پیز سے ادائیگی کے طریقہ کار پر بات جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ مفاہمتی یادداشتوں کو 12 فروری، 2021 سے سے قبل ترمیمی پی پی ایز میں تبدیل کیا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ونڈ آئی پی پیز کے سی ای اوز نے حکومت کی مذاکراتی ٹیم کو بتایا ہے کہ انہیں اپنے غیرملکی سرمایہ کاروں کی رائے لینا ہوگی کیوں کہ وہ حکومتی یقین دہانی کے بغیر مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنے سے کترارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ونڈ آئی پی پیز
نے نئے معاہدوں پر دستخط حکومت کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروانے سے مشروط کردی ہے اور کہا ہے کہ مرکزی پاور پرچیز ایجنسی (سی پی پی اے) ونڈ پاور پلانٹس سے بننے والی 100 فیصد بجلی خریدے گی اور بجلی سے چلنے والے آئی پی پیز کی راہ میں کسی قسم کی کوئی
رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔ فی الوقت سی پی پی اے بعض اوقات ونڈ آئی پی پیز کی بجلی کی فراوانی میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور اس طرح ونڈ پاور پلانٹس کو مالی خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ونڈ پاور پلانٹس کے پی پی ایز میں تشنگی ہے، جس کا سی پی پی اے فائدہ
اٹھاتا ہے اور لوڈ کی بنیاد پر چلنے والے پاور پلانٹس سے بجلی حاصل کرتا ہے حالانکہ اسے علم ہے کہ ونڈ پاور پلانٹس لازمی چلنے والے پروجیکٹس ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ونڈ آئی پی پیز کے تحفظات سے بالکل متفق ہیں۔ اگر حکومت ونڈ آئی پی پیز سے اس وقت بجلی حاصل نہیں کرتی جب
ونڈ ٹربائن بجلی پیدا کررہے ہوں تو سی پی پی اے کو مکمل ٹیرف کی ادائیگی انہیں ادا کرنا چاہئے۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں ونڈ آئی پی پیز مفاہمتی یادداشت پر دستخط نہیں کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بھی حکومت سے درخواست کی
ہے کہ ونڈ آئی پی پیز کو لازمی چلائے جانے والے پروجیکٹس کے طور پر دیکھا جائے۔ حکومت اس سے قبل چھ قابل تجدید آئی پی پیز سے مذاکرات کررہی تھی جس میں ٹی این بی لبرٹی، یو سی ایچ پاور، زیفائر پاور ونڈ، چائنا تھری گورجز، لاریب انرجی اور اسٹار ہائڈرو پیٹرند سے بات چیت کر
رہی تھی۔ یہ چھ آئی پی پیز 1200 میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتی تھیں لیکن مستقبل میں یہ زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھ سکتے ہیں۔ قابل تجدید پاور پلانٹس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے حکومت کو ونڈ آئی پی پیز کے مطالبات پورے کرنے چاہئیں۔ اہم بات یہ ہے کہ تین ہائڈرو پاور پروجیکٹس جس میں بونگ، پیٹرند اور گل پور شامل ہیں وہ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کرنے کے معاملے میں ٹال مٹول کررہے ہیں۔ جب کہ چائنا تھری گورجز ونڈ پاور پلانٹ بھی ٹال مٹول کررہا ہے۔