اسلام آباد (نیوز ڈیسک) شجاع نواز اپنی کتاب کراس سورڈ، پاکستان اٹس آرمی اینڈ دی وار وِد اِن میں اپنے بھائی سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز اور نواز شریف کا ایک قصہ بیان کیا ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ نواز شریف کو معلوم ہو گیا تھا کہ زیادہ تر معاملات میں نئے آرمی چیف اور وہ مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ کاروباری گھرانے میں پرورش پانے کی وجہ سے شریف کچھ
لو کچھ دو کی پالیسی پر یقین رکھتے تھے۔ان کے او ر ان کے والد کے نزدیک ذاتی تعلقات بے حد اہمیت کے حامل تھے، شجاع نواز نے لکھا کہ شریف فیملی نے آغاز ہی میں نئے آرمی چیف کے لیے ایک دعوت کا اہتمام کیا، اس دعوت میں میاں شریف اپنے دونوں بیٹوں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ آکر بیٹھے اور پنجابی زبان میں آرمی چیف سے کہا، یہ دونوں تمہارے چھوٹے بھائی ہیں اگر یہ کوئی بد تمیزی کریں تو مجھے بتانا، میں انہیں ٹھیک کروں گا، شجاع نوازنے لکھا کہ جنرل آصف نواز اس غیر رسمی رویے کے عادی نہیں تھے اور شاید انہیں تھوڑا برا محسوس ہوا ہو۔ بعد میں وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے اہتمام کردہ ناشتوں پر بھی وہ خاموشی ہی اختیار کرتے اور یہ دعوتیں بھی ان کے درمیان اعتماد سازی پیدا نہ کر سکیں۔اس موقع پرنواز شریف نے دوسرے ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانی اور قبائلی تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے فوج میں دوسرے جرنیلوں سے روابط بڑھا کر انہیں تیار کرنا شروع کر دیا۔ان کی جانب سے لاہور کور کمانڈر کے بھائی کو صنعتی یونٹ کا منافع بخش لائسنس بھی دیا گیا، جس پر نئے آرمی چیف کی طرف سے ان کور کمانڈر کو طلب کر سرزنش بھی کی گئی، شجاع نواز نے لکھا کہ نواز شریف نے نہ صرف آرمی چیف بلکہ فوج کے سینئر اہلکاروں کو بھی رشوت دینے کی کوشش کی، آرمی چیف جنرل آصف نواز کو یہ رپورٹس بھی موصول ہوئیں کہ
وزیراعظم نواز شریف نے کچھ جرنیلوں کو بی ایم ڈبلیو بطور تحفہ دی ہیں، یہ سب جنرل آصف نواز کے لئے خطرے کی گھنٹی کے مترادف تھا، شجاع نواز نے لکھا کہ ایک دن شہباز شریف بی ایم ڈبلیو کی چابی لئے آرمی چیف کے پاس آئے اور کہا کہ ابا جی نے آپ کے لئے بطور تحفہ بھیجی ہے
لیکن جنرل آصف نواز نے انکار کر دیا۔مری میں بھی میاں نواز شریف نے آرمی چیف کو بی ایم ڈبلیو کی چابی تھمانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے شکریہ کے ساتھ چابی انہیں واپس کر دی اور کہا کہ میرے پاس جو ہے میں اس پر بہت خوش ہوں۔ سلیوٹ کیا اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔