اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، تجزیہ کار اور کالم نگار سلیم صافی روزنامہ جنگ میں اپنے آج کے کالم ”سونامی سرکار کی ناکامی کی اصل وجوہات ” میں تحریر کرتے ہیں کہ ناتجربہ کاری کا بہانہ سفید جھوٹ ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ قائداعظم ان کے آئیڈیل ہیں تو
قائداعظم کو حکمرانی کا کونسا تجربہ تھا؟ کیا عمران خان کو پاکستان اس سے زیادہ بری حالت میں ملا تھا جس حالت میں قائداعظم کو ملا تھا؟ وہ خود کہتے ہیں کہ بائیس برس سیاست کے میدان میں جدوجہد کی ہے تو کیا ان بائیس برسوں میں صرف مخالفین کے لئے القابات اور دشنام طرازی سیکھتے رہے؟ خود پانچ برس کے پی کے حکمران رہے اور مرکز میں اگر خود حکمران نہیں رہے تو اردگرد سارے وہ لوگ جمع کئے ہیں جو جدی پشتی حکمران رہے۔شاہ محمود قریشی پہلی مرتبہ جنرل ضیا الحق کے زیرسایہ غیرجماعتی انتخابات میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1988میں نواز شریف اور 1990میں منظور وٹو کی کابینہ میں وزیر رہے۔ 1993میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی بنے اور پارلیمانی امور کے وزیر مملکت بنے۔ پرویز مشرف کے دور میں ڈسٹرکٹ ناظم رہے۔ 2008میں وزیرخارجہ بنے لیکن جب زرداری صاحب نے محسوس کیا کہ وہ لائن کہیں اور سے لے رہے ہیں تو ان کو وزارتِ خارجہ سے فارغ کردیا۔
وزیر دفاع پرویز خٹک ضلع ناظم رہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے صوبائی وزیر رہے۔ زرداری کے مشیر رہے۔ آفتاب شیرپائو کے دستِ راست رہے اور پھر پانچ برس تک پختونخوا کے وزیراعلی رہے۔ اب اِس سے بڑھ کر حکمرانی کا تجربہ اور کیا ہو سکتا ہے؟زبیدہ جلال 1988میں
نواز شریف کی پارٹی میں رہیں۔ مشرف دور میں علیم کی وزیر رہیں۔ خسرو بختیار پہلی مرتبہ میاں نواز شریف کے ٹکٹ پر 1997میں ایم پی اے بنے۔ 2002میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر ایم این اے اور پھر وزیر مملکت برائے خارجہ امور رہے۔ 2008میں پنجاب اسمبلی کے ممبر
بنے۔2013میں پھر نون لیگ کی طرف سے ایم این اے منتخب ہوئے، جنہوں نے انہیں قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی کا ممبر بنایا۔ شیخ رشید احمد نصف درجن سے زائد مرتبہ ایم این اے بنے اور نصف درجن سے زائد وزارتوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ شفقت محمود بیوروکریٹ رہے۔
وزیراعظم بینظیر بھٹو کے پولیٹکل سیکرٹری رہے۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر رہے۔معراج خالد کی نگران حکومت میں وفاقی اور پھر پرویز مشرف کی حکومت میں صوبائی وزیر رہے۔ سید فخر امام کی کم و بیش نصف زندگی حکومت میں گزری۔ کبھی وہ کبھی ان کی اہلیہ
وزارت سے مستفید ہوتی رہیں۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہے۔ہائوسنگ اینڈ ورکس کے وزیر طارق بشیر چیمہ الذوالفقار کے ممبر رہے۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی اور صوبائی وزیر رہے۔ مشرف کے دور میں بہاولپور کے ڈسٹرکٹ ناظم رہے۔ پھر 2013میں وہ قاف لیگ
کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔ صوبائی رابطہ کاری کی وزیر اور ذوالفقار مرزا کی اہلیہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا 1997میں پھر 2002میں ممبر قومی اسمبلی اور پھر 2008میں تیسری مرتبہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی اسپیکر بنیں۔ 2013میں پھر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر
ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔وزیر انرجی عمر ایوب کے دادا بھی حکمران رہے اور باپ بھی۔ 2002میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر ایم این اے اور وزیر مملکت برائے خزانہ رہے۔ نواز شریف کے دور میں فنانس کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ پرائیویٹائزیشن کے وزیر
میاں محمد سومرو نگران وزیراعظم رہے، گورنر رہے، چیئرمین سینیٹ رہے۔ قائمقام صدر رہے۔ وزیر ریلوے اعظم خان سواتی امریکہ سے واپس لوٹے تو پرویز مشرف کے دور میں مانسہرہ کے ڈسٹرکٹ ناظم بنے۔پھر مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے سینیٹر بنے اور پھر گیلانی
کابینہ میں وزیر رہے۔مذہبی امور کے وزیر پیرزادہ نورالحق قادری پہلی مرتبہ 2002پھر 2008میں ایم این اے منتخب ہوئے۔ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان 1988میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے۔ 1993میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت میں وزیر رہے۔ 2002میں ق لیگ
کی طرف سے ایم این اے بنے اور شوکت عزیز کابینہ میں لیبر کے وزیر بنے۔یہی معاملہ فردوس عاشق اعوان اور وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا بھی ہے۔ گویا سب سے زیادہ حکومتوں کے مزے لینے والے لوگ اِن کے پاس ہیں لیکن پھر بھی بندے کا اصرار ہے کہ وہ پہلی بار حکومت میں آئے تھے اور
سمجھنے میں وقت لگا۔ اِس لئے یہ تاثر بالکل غلط ہے جو عمران خان صاحب دے رہے ہیں۔ حالانکہ ناکامی کی اصل وجہ یہ ہے کہ جس طرح ایک کرکٹر کو وزیراعظم بنوا کر، جس کا کام اسی کو ساجھے کے اصول کی خلاف ورزی کی گئی، اسی طرح عمران خان صاحب نے اپنی ٹیم بناتے
وقت بھی رتی بھر یہ خیال نہیں رکھا کہ کون کس کام کے لئے اہل ہے؟ مثلا پرویز خٹک اگر تجربہ کار تھے اور واقعی انہوں نے صوبے میں دوبارہ الیکشن جتوایا تھا تو ان کو دوبارہ وزیراعلی بنانا چاہئے تھا۔زبیدہ جلال کو اگر تعلیم کی وزارت کا تجربہ تھا تو انہیں وہاں لانا چاہئے تھا اور فخرامام
کو اسپیکر بنانا چاہئے تھا، علی ہذہ القیاس لیکن عمران خان نے ٹیم بناتے وقت آغاز ہی میرٹ کی خلاف ورزی سے کیا۔ فواد چوہدری قانون کے ماہر ہیں لیکن وزیر قانون بنانے کی بجائے انہیں سائنس کی وزارت دی گئی۔شیخ رشید میڈیا کے ماہر ہیں لیکن انہیں پہلے ریلوے اور اب داخلہ کی
وزارت دی گئی۔ شاہ محمود قریشی کو مناسب وزارت خارجہ دی گئی لیکن ان کو اختیار دیا گیا اور نہ اس میں ان کی دلچسپی تھی۔اِس حکومت کی ناکامی کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ کسی اور کی طرف سے پولیٹکل مینجمنٹ کے نتیجے میں وزیراعظم بننے کی وجہ سے نہ تو لیڈر میں مطلوبہ
اعتماد تھا اور نہ ٹیم میں۔ دوسرا یہ کہ پہلے دن سے ٹیم کو یہ پیغام دیا گیا کہ ترقی اور تنزلی کارکردگی نہیں بلکہ خوشامد یا پھر میڈیا میں کارکردگی کی بنیاد پر ہوتی رہے گی۔ سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ جس کا جہاں مفاد وابستہ تھا، اسے وہاں وہاں کھپا دیا گیا۔ندیم بابر کا مفاد انرجی سیکٹر سے
وابستہ تھا تو انہیں اس کا وزیر بنا دیا گیا لیکن اس حکومت میں سب سے بڑا نقصان سرکاری مشینری کو پہنچایا گیا جس نے عملا کام کرنا چھوڑ دیا۔ میرٹ کی بجائے پسند ناپسند کا جو معیار بیوروکریسی اور پولیس کی تقرری میں اس حکومت میں دیکھا گیا، پہلے کبھی نظر نہیں آیا تھا۔نیب کے ذریعے فواد حسن فواد اور احد چیمہ وغیرہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، اس کی وجہ سے سبق لے کر بیوروکریسی نے رسک لینا شروع کیا۔ پاک پتن کے ڈی پی اور رضوان گوندل سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ بشیر میمن اور آر پی او لاہور سے ہوتا ہوا، انتہائوں تک جا پہنچا ہے۔