کراچی(آن لائن)متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر ڈاکٹرخالدمقبول صدیقی نے کہا ہے کہ کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کو نظرانداز کرنے اور انکے ساتھ زیادتیوں کی ایک تاریخ موجود ہے، سب سے بڑی زیادتی مردم شماری میں شہری علاقوں کے لوگوں کو کم دکھانا ہے۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے جعلی مردم شماری کو درست تسلیم کر لینے کے بعد ہم سوچ رہے ہیں کہ
ہمارے پاس وفاقی حکومت میں رہنے کا کیا جواز باقی رہ گیا ہے، ہمارے پاس اسکے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ ہم عوام کے درمیان جائیں کیونکہ اسکے اثرات ہماری نسلوں کے مستقبل پر پڑنے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بہادرآباد میں واقع ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی مرکز پر اراکین رابطہ کمیٹی کے ہمراہ پْر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت میں شامل ہونے کیلئے ایم کیوایم کا مطالبہ وفاقی وزارت نہیں بلکہ درست مردم شماری تھا جس پر ہمیں دھوکہ دیا گیا، انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت بتائے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے کونسے مطالبات پورے کئے گئے؟ کراچی کے عوام آج بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، ایم کیو ایم پاکستان کے لاپتہ کارکنان آج تک بازیاب نہیں ہوئے، شہر کچرے کا ڈھیر بنا کر سندھ کی کرپٹ حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، 18 ویں ترمیم کے نام پر پوری قوم کو دھوکہ دیا گیا جس کا سب سے زیادہ نقصان سندھ کے شہری علاقوں میں رہنے والے عوام کو ہوا۔ وفاقی حکومت بتائے کہ تمام آئینی آپشنز موجود ہونے کے باوجود فیصلے کیوں نہیں کیے جارہے؟ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ جعلی مردم شماری کو درست تسلیم کرکے وفاقی حکومت نے کراچی کے عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ کراچی کے وسائل سمیت سرکاری نوکریوں پر کراچی والوں کا کوئی حق نہیں ہے، کراچی کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں ووٹرز
موجود ہیں لیکن مردم شماری میں تعداد صفر دکھائی گئی، انہوں نے کہا کہ ہم کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز اْٹھا رہے ہیں اور اسکے لئے ہم عوامی رائے لیکر ہر فورم پر جائیں گے مگر کراچی پر اپنا حق جتانے والے دوسرے سیاستدان کہاں غائب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ معزز عدلیہ اور میڈیا بھی سندھ کے شہروں بلخصوص کراچی کو اس
کا حق دلوانے میں کردار ادا کرے۔کئی دہائیوں سے سندھ کے شہری علاقوں کو زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے رکھا گیا مگر کراچی ان تمام تر ذیادتیوں اور ناانصافیوں کے باوجود پوری ایمانداری کے ساتھ60 فیصدوفاق کو اور95 فیصد سندھ کو ریونیو
ادا کرتا ہے پاکستان کے خزانے بھرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ارباب اختیار اس معاملے پر اتفاق رائے کر چکے ہیں کہ کراچی کے مسائل حل کرنا ہی نہیں ہے تو ہمیں بھی بتادیا جائے تاکہ ہم بھی عوامی مشاورت سے اپنے لائحہ عمل کا اعلان کردیں۔