لاہور (آن لائن)پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے مرکزی سیکرٹری جنرل سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی کی قیادت میں وفد نے شہباز شریف سے ملاقات کی۔ملاقات میں پارٹی کے مرکزی صدر پیر سید صبغت اللہ شاہ کا اہم پیغام پہنچایا۔ ملاقات کے بعد جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محمد علی درانی نے کہا کہ پیرپگارا کی جانب سے پیغام شہبازشریف کے پاس لایا ہوں جس
پر فخر ہے۔ پیر پگارا نے چار نکات کیلئے شہباز شریف کے پاس بھیجا۔ انہوں نے ملک میں گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کی۔ ٹکراو سے پہلے ایسے راستے نکالنا ہوں گے کہ جو مفاہمت کا راستہ ہو۔ پاکستان کے حالات و قوم ٹکراو کی صورتحال سے سے شدیدتکلیف میں ہے۔ پیر صاحب چاہتے ہیں کہ ایسی گفتگو ہو جس میں مخالف بھی اکٹھے لوگ بیٹھ جائیں۔ پارلیمنٹ کو دوبارہ سے اپنا کام شروع کرنا چاہئے ملک و آئین پارلیمنٹ کی بالا دستی ہو۔ محمد علی درانی نے مزید کہا کہ استعفوں کی آگ جمہوریت اور معیشت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیر پگارا سمجھتے ہیں کہ استعفوں کے بعد بھی ڈائیلاگ ہی ہونا ہیں تو کیوں نہ اس کی ابتداء ابھی سے کی جائے۔ محمد علی درانی نے مزید کہا کہ ملاقات کے دوران اپوزیشن رہنما شہبازشریف نے کہا کہ قوم کے اتحاد کیلئے ہر حد تک جانا چاہتاہوں اور اپوزیشن اور پی ڈی ایم کو متحد کرنا چاہتے ہیں، پیر پگارا نے جو تجویز دی ہے اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ تاہم جیل میں رہ کے کوئی بھی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ محمد علی درانی نے مزید کہا کہ ٹکراو کی بنیاد سے ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں مسلم لیگ اور یہ سوچ رکھنے والوں کواتحاد و یکجہتی پیدا کریں۔ اگر اپوزیشن حکومت کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتی تو اس بات کی ضرورت ہے کہ ڈائیلاگ کو شروع کیاجائے۔ ہم نے یہ تجویز رکھی ہے کہ ٹریک ٹو ڈائیلاگ کا آغاز کیاجائے۔
ملک جنگی صورتحال میں بھی ٹریک ٹو ڈائیلاگ کرتے ہیں۔ حکومت، اداروں اور اپوزیشن کو ٹریک ٹو ڈائیلاگ شروع کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ این آر او والی حکومت کی بات روز دیکھ رہے ہیں۔ اپوزیشن ہویا حکومت دونوں طرف کی قیادت ڈائیلاگ چاہتی ہیں۔ ٹکراؤ ختم کرنے کا ماحول پیدا کرناہوگا۔ محمد علی درانی نے واضح کیا کہ پیرا پگارا کی جانب سے کسی کے خلاف یا ٹکراو
کیلئے شہبازشریف سے ملاقات کیلئے نہیں آئے، ہم چاہتے ہیں استعفوں کی آگ سے پہلے ٹکراؤ نہ ہوکیونکہ ٹکراؤ میں کوئی نہیں جیتے گا جیتنے والے اور ہارنے والے شکست کھا جائیں گے۔ جو پی ڈی ایم فیصلہ کرے گی اس میں سب پابند ہیں قانون کی بات نہیں اصول کی بات کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جس سے مسائل پیدا ہوں۔ پی ایم ایل ایف کے
سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ ضرورت پڑی تو مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو زرداری یا مریم نواز سے بھی سے بات چیت کیلئے بھی جائیں گے۔ ملکی قیادت سے رابطے میں ہیں، نہ لیڈری کے چکر میں ہیں نہ ہی ایسی سوچ ہے۔ ملکی مفاد کیلئے حکومت و اپوزیشن کی یکجہتی ناگزیر ہے۔ جو بات کہہ رہاہوں وہ اسٹیبلشمنٹ حکومت اور اپوزیشن کیلئے بہتر ہے۔ تاہم احتساب کے نام پر
کسی کو بھی دیوار سے لگانا غلط ہوگا۔ اپوزیشن کو گرفتار کرلیں گے تو بات چیت کا دروازہ بند ہوجائیگا۔ جیلوں میں بند کرکے تحریکوں کو نہیں روکا جا سکتا۔ پارلیمنٹ میں موجود رہنماؤں کو آزاد کرنا چاہئیے۔ ایسی صورتحال ہے عدلیہ انتظامیہ اسیبہشمنٹ سیاسی جماعتوں کو نارمل سیاسی مراحل کو لے کر آئیں، میثاق جمہوریت، میثاق برداشت اورمیثاق پارلیمنٹ کی اب ناگزیر ہو چکی ہے۔