لاہور(آن لائن) پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا ہے کہ جنوری کےآ خر یا فروری کے آغاز میں اسلام آباد لانگ مارچ کریں گے، اسلام آباد پہنچ کر حکومت کو چلنے نہیں دیں گے،ان کے استعفے ساتھ لے کر جائیں گے، عوام کو روکیں نہیں، انارکی کی طرف جانے سے پہلے حالات سنبھال لینے چاہیں۔ دھاندلی کے ذریعے مسلط جعلی
حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اتوار کو لاہور میں مینار پاکستان میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس فقید المثال جلسے کے انعقاد پر پی ڈی ایم کے کارکنوں اور عوام کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، آج مینار پاکستان کامیدان تنگی دامان کی شکایت کر رہا ہے،اس میدان کے باہر لاہور کی شاہراہیں عوامی سمندر سے محظوظ ہو رہی ہیں اورمیں آپ کے جلسے کو سلام پیش کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ 1940 کی قرار داد کے بعد آج اسی میدان میں مینار پاکستان کے سائے تلے جس عزم اور جس عہد کی تجدید کر رہے ہوں مستقبل کے لیے یہ سنگ میل ثابت ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست کی اس نزاکت کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور اس معاشرے میں اس احساس کو فروغ پاتے دیکھ رہا ہوں، گجرانوالہ کے جلسے سے لے کر ملک کے تمام بڑے شہروں میں عوام کی بے پناہ شرکت سے ہونے والے اجتماعات اور آج لاہور میں فقیدالمثال اجتماع سے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور پاکستان کے اوپر ناجائز حکومت کے لیے اسٹبلشمنٹ نے جو دھاندلی کی تھی اور ایک ناجائز، غیرآئینی اور گندا کردار ادا کیا تھا، اس کے زخم اب گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں خطرہ محسوس کر رہا ہوں کہ کہیں آنے والے دنوں میں ہمیں وہ حالات نہ دیکھنے پڑیں جہاں اسٹبلشمنٹ بمقابلہ پاکستان کے عوام نظر آئیں اور ایک دوسرے کے
سامنے کھڑے ہوجائیں، یہ بڑے تشویش ناک حالات ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ میں آج متنبہ کرنا چاہتا ہوں، آج اپنی دفاعی قوت اور اس کی قیادت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں، آج اسٹبلشمنٹ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے عوام کے مقابلے کے سامنے ہٹ جائے، عوام کو راستہ دیجیے اور اسلام آباد پہنچنے دیجیے، پارلیمنٹ عوام کی ہے، طاقت اور حکومت عوام کی ہوگی، دھاندلی کا نظام نہیں چلے
گا۔ان کا کہنا تھا کہ زخم گہرے ہوتے جارہے ہیں، احساسات پر غصے اور ناراضی کا عنصر بڑھتا چلا جا رہا ہے اورہم خیر خواہی کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایک قوم کی طرح رہنا چاہیے، پاکستان ہے تو پاکستان عوام کا نام ہے، اسی عوام سے ادارے، عدلیہ، پارلیمنٹ، فوج اور دفاعی قوت بنتی ہے، اگر ادارے ایک دوسرے کے مقابلے میں آتے ہیں اور عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے
تو پھر قومی یک جہتی کبھی برقرار نہیں رہ سکتی۔سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے اندر انارکی دیکھ رہا ہوں، ہمیں انارکی کی طرف جانے سے پہلے حالات کو سنبھالنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ تحریک، یہ جدوجہد پاکستان میں آزاد جمہوری فضاؤں اورپاکستان کو مستحکم کرنے کے لیے ہو رہی ہے، اور جب اسی مینار پاکستان کے مقدس مقام پر قرار داد پاس
کی گئی تو ایک ایسی مملکت کی تصور کے ساتھ تھی کہ ایک طاقت ور اسلامی ملک جو امت مسلمہ کی قیادت اور دنیا بھرکے مسلمانوں اور مظلوموں کی آواز بنتا نظر آئے، جو دنیا بھر کے انسانی حقوق کی بات کرتا ہوا نظر آئے لیکن آج 72 سال گزرنے کے بعد اسٹبلشمنٹ کی بالادستی کی نتیجے میں ہمارا ملک ایک غلام ملک کی طرح نظر آرہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج عہد کریں کہ ہم نے اس
ملک کو آزاد رکھنا ہے، اس ملک کو عالمی اسٹبلمشنٹ سے آزاد رکھنا ہے، ہم نے اپنی فوج کو ان کے دباؤ سے نکالنا ہے، ہم نے اپنے عوام اور عدلیہ کو ان کے دباؤ سے نکالنا ہے، ایک آزاد قوم کی طرح دنیا میں ہم نے اپنی شناخت پیدا کرنی ہے۔مولانافضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم محسوس کر رہے ہیں کہ وہ کشمیر جو 73 سال تک بھارت ہڑپ کرنے کی جرات نہیں کرسکا، آج بھارت نے
کشمیر کوہڑپ کردیا اور قبضہ کرلیا، اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں، یا عمران خان کی حکومت نے پاکستان کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ ہم کشمیر کا تحفظ نہیں کرسکے ہیں یا یہ پھرعمران خان نے کشمیر کا سودا کیا ہے اور بھارت کے ہاتھ بیچا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم کشمیریوں کو آزادی نہیں دلا سکے، جمہوریت، معیشت اورکچھ نہیں دے سکے حالانکہ ہم نے کشمیر کی ماؤں کی عزت و ناموس
پر سیاست کی، کس حوالے سے کی۔انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک بیان دے رہا ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمارا بجٹ صفر سے نیچے چلا گیا ہے اورسالانہ ترقی کا تخمینہ صفر سے بھی کم ہوگیا ہے، مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ دی ہے۔ قوت خرید کو ختم کردیا ہے، نوجوان کا مستقبل تاریک کردیا گیا، سرکاری اداروں سے 30 لاکھ سے زیادہ ملازمین برطرف کردیے گئے اور ادارے
کھوکھلے ہو چکے ہیں۔اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک کو مطمئن کرنا ہے اورہر شعبے کے لوگوں کو مطمئن کرنا ہے تو آئیں ہمت کریں اور انقلاب برپا کریں، ہم اس ملک میں کسی کی غلامی کے لیے پیدا نہیں ہوئے، ہم آزاد قوم ہیں، آزادی کے جذبے کے ساتھ اس ملک کو ترقی دینی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک انٹرویو میں مجھ سے پوچھا گیا کہ عمران خان بھی کہتا تھا کہ دھاندلی
ہوئی ہے اور وہ بھی دھرنا دے رہا تھا تو دونوں میں کیا فرق ہے تو میں نے کہا کہ اس وقت الیکشن کمیشن متنازع نہیں تھا، اس وقت آر ٹی ایس کا نظام بند نہیں ہوا تھا، اس وقت کسی جنرل آصف غفور نے یہ نہیں کہا تھا کہ و تعز من تشا و تذل من تشا، یہ
ساری چیزیں اس وقت نہیں تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ 4 حلقوں پر اعتراض ہے، کہنے لگا 70 پر اعتراض ہے ہم نے کہا کہ بسم اللہ، آخر حساب ہی ختم ہوگیا، دھرنے میں آیا تو کسی نے کرایا، حکومت میں آیا تو کسی نے دلائی لیکن اب یہ سیاست نہیں چلے گی۔