بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

”پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ ملکی ادارے حکومت کو اپوزیشن سے بچا رہے ہیں ” حامد میر نے مریم نواز کی سیاست سے متعلق بڑا دعویٰ کردیا

datetime 10  دسمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر روزنامہ جنگ میں اپنے آج کے کالم ”محاصرے میں ڈائیلاگ ” میں تحریر کرتے ہیں کہ یہ کوئی نیا الزام نہیں ہے، بہت پرانا الزام ہے۔ جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو کہا کرتے تھے کہ نواز شریف کی حکومت غیرملکی

ایجنڈے پر چل رہی ہے۔ اب عمران خان وزیراعظم ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز سے علامہ ساجد میر تک سب یہ الزام لگا رہے ہیں کہ عمران خان غیرملکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کو غیرملکی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں۔ اِس صورتحال میں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کیسے ہو سکتا ہے؟ چند ہفتے پہلے کی بات ہے، اپوزیشن کی ایک بہت اہم شخصیت نے ایک صاحب سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ کے ہر طرف تعلقات ہیں۔آپ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے لئے کوشش کریں، ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ ان صاحب نے مختلف اسٹیک ہولڈرز سے بات کی۔ سب نے ڈائیلاگ کی ضرورت پر اتفاق کیا لیکن کوئی کسی پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔یہ وہ دن تھے جب مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ اور وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت پر اتفاق کیا لیکن پھر اینٹی کرپشن پنجاب نے مسلم لیگ (ن) کے پچاس سے زائد اراکین قومی

اسمبلی کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا لہذا جواب میں رانا ثنا اللہ بھی ڈرانے دھمکانے پر آ گئے۔اب جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بلاول اور مریم نواز کے درمیان کھڑے ہو کر اسمبلیوں سے استعفوں اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے تو ڈائیلاگ

کا مطلب حکومت کو این آر او دینا ہوگا۔اڑھائی سال تک وزیراعظم عمران خان بار بار یہ اعلان کرتے رہے کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا، وہ منہ پر ہاتھ پھیر پھیر کر اپوزیشن کو دھمکیاں دیتے رہے کہ میں تمہیں دیکھ لوں گا۔ کئی وفاقی وزرا یہ اعلانات کرتے رہے کہ بہت جلد

مسلم لیگ (ن) میں سے مسلم لیگ (ش) نکل کر سامنے آئے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کبھی اسمبلیوں سے استعفے نہیں دے گی لیکن نہ تو ن میں سے ش نکلی، نہ پیپلز پارٹی نے مستعفی ہونے سے انکار کیا۔اڑھائی سال تک عمران خان نے اپوزیشن کو اپنی طاقت دکھائی۔

اب اپوزیشن نے عمران خان کو اپنی طاقت دکھانی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست نہیں ہو رہی۔ یہاں سیاست کے نام پر ایک دوسرے سے انتقام لیا جا رہا ہے۔ عمران خان کا انتقام بھی اندھا ہے اور اپوزیشن کا انتقام بھی۔ مارو یا مر جائو کی جو سیاست عمران خان نے شروع کی ، اسے

مولانا فضل الرحمن انجام تک پہنچائیں گے۔آج کل پاکستان کی سیاست میں وہ کچھ ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ پہلے کچھ ریاستی ادارے اپوزیشن کے ساتھ مل کر حکومت گرایا کرتے تھے۔ پہلی دفعہ یہ ادارے حکومت کو گرانے کی بجائے اسے اپوزیشن سے بچا رہے ہیں۔ عام آدمی کے

خیال میں یہ ادارے نہ کل نیوٹرل تھے، نہ آج نیوٹرل ہیں۔ اپوزیشن نے کبھی آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع اور کبھی ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر قانون سازی میں حکومت سے تعاون کیا لیکن حکومت نے اِس تعاون کو کمزوری سمجھا اور آخر کار مفاہمت کے سب سے بڑے علمبردار

شہباز شریف کو اڑھائی سال میں دوسری دفعہ گرفتار کرا دیا۔شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت مریم نواز کے پاس چلی گئی۔ جب مریم نواز نے پی ڈی ایم کے جلسوں سے خطاب شروع کیا تو ٹی وی چینلز ان کی تقاریر دکھانے سے گریز کرتے تھے۔گھٹن کا ماحول تھا

لیکن مریم نواز نے اس ماحول میں وہ کہنا شروع کر دیا جو کسی زمانے میں احمد فراز نے اپنی نظم محاصرہ میں کہا تھا۔ مریم نواز نے اپنی تقریروں کے ذریعے کئی محاصرے توڑنے کی کوشش شروع کی اور ان کی اِس کوشش کو بے پناہ پذیرائی ملی۔اِس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ وہ سیاست میں

اِس لئے آئیں کیونکہ وہ نواز شریف کی بیٹی ہیں لیکن عمران خان کے مخالفین میں ان کی پذیرائی کی وجہ ان کا بیانیہ ہے جسے محصور کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش ناکام ہو گئی۔ جس کسی نے بھی شہباز شریف کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا وہ مریم نواز کا اصل محسن ہے۔ اسی محسن

کی مہربانی سے شہباز شریف اور مریم نواز سے چچا بھتیجی نہیں بلکہ باپ بیٹی کی طرح متحد ہو چکے ہیں۔آپ مریم نواز سے لاکھ اختلاف کریں لیکن آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ خوف کے اس محاصرے کو توڑ چکی ہیں جس کی نشاندہی بہت سال پہلے احمد فراز نے کی تھی۔یہ محاصرہ اس

وقت مکمل طور پر ختم ہو گا جب مریم نواز سمیت اپوزیشن کے دیگر رہنمائوں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ اِسی لئے مولانا فضل الرحمن جیل بھرو تحریک کی تجویز دے چکے ہیں۔ جیل بھرنے سے عمران خان کو فرق نہیں پڑے گا، جیل بھرنے سے خوف کا وہ محاصرہ پاش پاش ہو سکتا ہے جو آج

کی اپوزیشن کا اصل ہدف ہے۔آپ اپوزیشن کی قیادت سے ڈائیلاگ کی بات کریں تو وہ تڑپ کر کہتے ہیں، بہت ہو گیا ڈائیلاگ، جائو ان سے کہو ہمیں مار دیں، ہمیں جیل میں ڈال دیں، اب ہم کسی پر کوئی اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں۔ خود ہی سوچئے کہ محاصرے میں ڈائیلاگ کیسے ہو سکتا ہے؟

ایک طرف اپوزیشن رہنمائوں پر مقدمات، میڈیا پر دبائو اور عدلیہ کی آزادی کے لئے خطرات ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم کہتا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک پیچھے کے غیرملکی ہاتھ ہے تو ڈائیلاگ کیسے ہوگا؟کیا اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث اپوزیشن نے شروع کی ہے؟ کیا 5اگست 2019کو

ہونے والا سقوطِ کشمیر اپوزیشن نے کرایا ہے؟ پہلے یہ تو بتایا جائے کہ اپوزیشن کے پیچھے کس کا خفیہ ہاتھ ہے؟ ہمت کیجئے۔ نام تو بتائیے۔ اپوزیشن بھی ہمت کرے اور قوم کو وہ سب بتا دے جو ابھی تک راز میں ہے۔سب سچائیاں سامنے لائی جائیں۔ فیصلہ ہو جائے کہ وطن دشمن کون ہے اور

آئین و قانون کا دشمن کون ہے؟ خوف اور جھوٹ کے محاصرے کو صرف اور صرف سچائی توڑ سکتی ہے۔عمران خان میں ہمت ہے تو قوم کے ساتھ پورا سچ بولیں۔ اپوزیشن میں ہمت ہے تو قوم کے ساتھ پورا سچ بولے۔ جب سب کا اندر باہر واضح ہو جائے اور محاصرہ ٹوٹ جائے تو پھر ڈائیلاگ کا ماحول پیدا ہوگا اور یہ ڈائیلاگ کامیاب بھی ہوگا۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…