اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی اور کالم نگار سلیم صافی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔کورونا کی وبا اب کی بار پہلے سے زیادہ ظالم بن کر لوٹی ہے اور اس نے ہمت اور جرات کے پہاڑ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سیٹھ وقار کو بھی ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا کردیا۔
عدلیہ کے وقار، ڈی آئی خان کے وقار، پختونخوا کے وقار بلکہ پورے پاکستان کے وقار جسٹس سیٹھ وقار اب ہم میں نہیں رہے۔ ان کے بعض فیصلوں اور بعض فیصلوں کے بعض فقروں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور ہم نے کیا بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جسٹس سیٹھ وقار ان چند ججز میں سے ایک تھے، جنہوں نے تاریکی کے اس دور میں حق اور انصاف کی شمع جلائے رکھی۔وہ ان ججز میں سے ایک تھے جو خود نہیں بولتے بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں۔میرا ان سے ذاتی تعلق نہیں تھا لیکن ان کے یونیورسٹی کے دنوں کے دوست شیراز پراچہ اور ان کے قریب رہنے والے سلیم شاہ ہوتی ایڈوکیٹ جیسے لوگوں کی تحریر میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ دورِ طالب علمی سے ایسے ہی تھے۔ یعنی قول سے زیادہ عمل پر یقین رکھنے والے۔ جمہوریت اور آئین کو جان سے زیادہ عزیز سمجھنے والے۔ سادہ اتنے کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے تو حفاظت کے مسائل کے باوجود پہلی فرصت میں اپنے ساتھ گاڑیوں کا قافلہ کم کروایا۔
دیانتدار اتنے کہ رحلت سے قبل بھی ڈاکٹر کو نصیحت کررہے تھے کہ ان کا بل سرکار کے خزانے سے نہیں بلکہ ان کے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا ہونا چاہئے۔میں جانتا ہوں کہ انہوں نے کئی طاقتور لوگوں اور طاقتور اداروں کو ناراض کیا تھا۔ وہ کئی لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے۔
تبھی تو تین مرتبہ سپرسیڈ کرکے انہیں سپریم کورٹ آنے نہیں دیا گیا۔ میں اس سے بھی آگاہ ہوں کہ ان کے بعض فیصلوں کی وجہ سے بعض لوگوں نے ان کو اور ان کے اہل خانہ کو ٹارچر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا لیکن میں ذاتی معلومات کی بنا پر یہ بھی جانتا ہوں کہ ان کی رحلت میں کسی کا کوئی ہاتھ تھا، کوئی سازش ہوئی اور نہ ان کے علاج میں رتی بھر غفلت۔