اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سابق آرمی چیف جنرل (ر)مرزا اسلم بیگ اپنے ایک خصوصی کالم میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔عمران خان حزب اختلاف والوں سے ملنا پسندنہیں کرتے اسی لئے آرمی چیف نے اپوزیشن سے ملاقات کی تاکہ کشیدگی کم ہو۔ عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ
وہ آخری بال تک لڑنے کے قائل ہیں۔ لہذا اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ معاملات کو کھلے میدان میں حل کرنے کا فیصلہ کریں گے جبکہ اس کے جواب میں حزب اختلاف نے تحریک چلانے کی جو سیاسی حکمت عملی وضع کر رکھی ہے اس کے خدوخال بڑے واضع ہیں مثلا:آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ بجائے کسی اورسیاسی قائد کے مولانا فضل الرحمن نے پڑھا۔یعنی ان کے سیاسی وزن کوتسلیم کیا گیا ہے۔تحریک کی قیادت سیاسی حکمت کے تحت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو سونپی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ آئندہ قائم ہونے والے کسی بھی نظام میںجمعیت علمائے اسلام (ف) اپنے لئے نمایاں سیاسی مقام حاصل کر سکے گی ۔اس امر کا کافی مدت سے انتظار تھاخصوصاً 2018 کے انتخابات میں جب دینی جماعتوں نے بڑے قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیالیکن ان کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے بالخصوص مولانا سمیع الحق جو کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے امیدوار تھے وہ انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔
اب حزب اختلاف کی صفوں میں اصغر خان جیسا کوئی شخص موجود نہیں ہے جوحالات بگڑنے کی صورت میں فوج کے سربراہ کو اقتدار سنبھالنے پر اکسا سکے۔اس تناظر میں نواز شریف کے تندوتیز خطاب کوتوجہ طلب قرار دیا جارہا ہے کہ اس سے قومی اداروں کے مابین
بدگمانی پید اکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔حکومت نے تحریک کو دبانے کے لئے طاقت کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے ۔ شہباز شریف کونیب نے حراست میں لے لیا ہے۔زرداری پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اورجادوکا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ عمران خان کو تحریک کو دبانے کے لئے
ٹائیگر فورس کو استعمال کرنے پر اکسایا جا سکتا ہے جیسا کہ بھٹو نے ایف ایس ایف (FSF)کو استعمال کیا تھا جس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوئے تھے۔بالآخرنظام کو بچانے کے لئے سلامتی کے اداروں کو مداخلت کرنا پڑے گی۔حکومت کے پاس آخری حربہ یہی ہوگا۔
اگر ایسا ہوا تو یہ صورت حال انتہائی مخدوش شکل اختیار کر جائے گی کیونکہ عوام کا مزاج ایک اور فوجی حکومت قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کی قیادت پر بدعنوانی کے الزامات ہیں لیکن ان کے درمیان صاف شفاف کردار کے حامل ایسے قابل لوگ بھی
موجود ہیں جوحکمرانی کا تجربہ بھی رکھتے ہیں اورجمہوری اقدار کے تحفظ اور آئین کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ایسے لوگ معاملات کو سنبھال کر شفاف انداز سے انتقال اقتدار یقینی بنا سکتے ہیں بجائے اس کے کہ دھاندلی زدہ انتخابات یا ریاست
کے پس پردہ کارفرما قوت (Deep State) کی چالوں کے ذریعے یا چار اے(Four A) کا گٹھ جوڑ اقتدار سنبھال لے۔اہم بات یہ ہے کہ عوام یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ کرونا کی وبا کی آلودگی کے باوجود جمہوریت کو آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع دیا جانا لازم ہے۔