خضدار( این این آئی) خضدار ٹو رتوڈیروروڈ سی پیک شاہراہ کے نام سے متعارف ہے، تاہم اس شاہراہ پر سفر کرنا جان ہتھیلی پر رکھنے کے مترادف اور جان جوکھوں والا کام بن چکا۔تودہ گرنا اور روڈ کا ٹوٹ جانا عام سی بات ہے، یہاں ایک سو کلومیٹر تک سی پیک شاہراہ صفحہ
ہستی سے مٹ چکی ہے۔ 2003سے تعمیراتی آغاز لینے والی شاہراہ 2018یعنی پندرہ سال میں جاکر مکمل ہوچکی ہے،قومی خزانے سے اربوں روپے اس شاہراہ پر خرچ ہوئے اب نتیجہ یہ ہے کہ جس شاہراہ کو سی پیک کا نام دیاجارہاہے اسے ایک لنک روڈ کا نام دینا بھی عیب دار محسوس ہوتی ہے۔ خضدار رتوڈیرو شاہراہ کو بنانے اور اس کی نگرانی کرنے اور اس کے لئے فنڈز ریلیز اور وصول کرنے والے انجینئرز، پروجیکٹ ڈائریکٹرز، محکمہ این ایچ اے اور ان کے رجسٹرڈ کنسٹریکشن فرمز کو ہی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے بلوچستان کے لئے شاہراہ تعمیر کی ہے یا کوئی آثارِ قدیمہ دریافت کرلیا ہے۔نہ شاہراہ کی کوئی ساخت ہے، نہ شاہراہ کا پل و لک موجود ہے۔حالیہ بارشوں سے خضدار رتوڈیرو شاہراہ کا ایک سو کلومیٹر حصہ ختم ہوچکا ہے۔ جب کہ گزشتہ تین روز سے ونگو مارکو کے علاقے میں لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے روڈ مکمل طور پر بند ہوچکا ہے،مسافربڑی تعداد میں بے یار و مدد گار پڑے ہیں،جن میں خواتین بچے اور ضعیف و مریض افراد شامل ہیں اور وہ رْل رہے ہیں وہاں سینکڑوں گاڑیاں کھڑی ہیں نہ وہ بلوچستان میں داخل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی سندھ میں،سبزئی سپلائی کرنے والے افراد نے اپنی سبزیاں خراب ہونے پر وہی ضائع کردی ہیں۔