لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) ایک صحافی احمد نورانی نے غیر معروف ویب سائٹ پر وزیراعظم کے مشیر اطلاعات اور چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے مبینہ طور پر دنیا کے چار ممالک میں موجود کاروبار اور اثاثوں کی تفصیل جاری کی تو پاکستانی میڈیا نے اسے اہمیت نہیں دی اور اس کی اشاعت یا نشر کرنے سے گریز کیا، لیکن اب یہ معاملہ خود جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ میڈیا پر
لے آئے ہیں۔روزنامہ پاکستان میں نسیم شاہد اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ انہوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حوالے سے چار صفحات کا ایک وضاحتی بیان مکمل حوالوں کے ساتھ جاری کیا ہے اور ساتھ ہی مختلف چینلوں پر آکر رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی تردید بھی کی ہے۔ اسی دوران انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ وزیراعظم کے مشیر اطلاعات کا عہدہ چھوڑ رہے ہیں اور صرف چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے طور پر ملک و قوم کی خدمت کرتے رہیں گے۔ اس سے پہلے جب وہ اے آر وائی پر کاشف عباسی کے پروگرام میں انٹرویو دے رہے تھے تو کاشف عباسی کے یہ کہنے پر کہ اب آپ ایک سیاسی آدمی ہیں تو انہوں نے فوراً ٹوکا اور کہا کہ مَیں سیاسی آدمی نہیں ہوں، نہ مشیر اطلاعات بننے کے بعد مَیں نے کوئی سیاسی بیان دیا ہے۔ شائد اس کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں یہ عہدہ چھوڑ دینا چاہیے جو انہیں فوجی جرنیل سے سیاست دان بنا رہا ہے۔ یاد رہے کہ جب مشیر اطلاعات بننے کی وجہ سے جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو اپنے اثاثوں کی تفصیل جمع کرانا پڑ گئی تھی اور بعدازاں اس تفصیل کی وجہ سے انہیں سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا، تو مَیں نے انہی دنوں اپنے کالم میں لکھا تھاکہ عاصم باجوہ اگر مشیر اطلاعات نہ بنتے تو انہیں گوشوارے بھی
پیش نہ کرنے پڑتے، کیونکہ یہ گرفت صرف سیاسی اور عوامی عہدہ لینے پر ہوتی ہے کہ وہ اپنے اثاثے ظاہر کریں۔ غالباً جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ سے یہی غلطی ہوئی کہ انہوں نے ایک سیاسی عہدے کی پیشکش قبول کی۔ وہ صرف چیئرمین سی پیک اتھارٹی ہوتے تو ان سے کسی نے گوشوارہ جمع کرانے کا تقاضا تک نہیں کرنا تھا۔ نسیم شاہد نے لکھا ہے کہ جب سے سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کو
اپنے ذرائع سے زیادہ اثاثے رکھنے اور تفصیلات ظاہر نہ کرنے پر عمر بھر کے لئے نااہل اور سات سال کی سزا دی گئی ہے، عوام اب کسی کو کوئی رعایت دینے کے لئے تیار نہیں، اگر تین بار وزیراعظم رہنے والا احتساب سے نہیں بچ سکتا تو باقی عہدے تو اس سے بہت چھوٹے ہیں، ان کی کرپشن سے صرفِ نظر کیوں کیا جائے؟ یہی عوام یہ منظر بھی دیکھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج کی
اہلیہ کو اپنے اثاثوں کی تفصیل دینے کے لئے ایف بی آر کے چکر لگانے پڑ رہے ہیں اور جو تفصیلات پیش کی جاتی ہیں، انہیں رد بھی کر دیا جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے فرنٹ فٹ پر آنے کا فیصلہ کیا۔ وہ خود تفصیلات سامنے نہ لاتے اور اپنے اسی دو سطری ٹویٹ پر انحصار کرتے کہ رپورٹ من گھڑت اور ان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے، تو بات نہ بنتی۔
بات تو اب بھی نہیں بنی اور کچھ مزید سوالات اٹھ گئے ہیں، تاہم انہوں نے اپنی خاموشی توڑ دی ہے۔ میرے ذہن میں نوازشریف کا وہ جملہ آ رہا ہے جو انہوں نے اپنے اثاثوں کی منی ٹریل دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کے فلیٹس خریدے گئے، مگر سب نے دیکھا کہ اس جملے پر یقین کرکے ان کے خلاف تحقیق کا باب بند نہیں کر دیا گیا، بلکہ جے آئی ٹی بنا کر ان کے اثاثوں کی تحقیق کی گئی
اور بعدازاں اسی کی بنیاد پر ان کے خلاف نیب عدالت میں مقدمہ چلا اور انہیں سزا سنائی گئی۔ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے بھی پہلا مرحلہ عبورکر لیا ہے۔ انہوں نے اپنے خاندانی کاروبار اور اہلیہ کی اس میں شراکت داری کے حوالے سے تفصیلات جاری کر دی ہیں، لیکن کیا انہیں من و عن تسلیم کر لیا جائے گا یا اس کے لئے نوازشریف اور قاضی عیسیٰ فائز کی طرح کوئی تحقیق و تفتیش کرائی جائے گی،
تاکہ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ پر جو الزامات لگے ہیں، ان کے بادل چھٹ جائیں۔جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے جو چار صفحات کا وضاحتی بیان جاری کیا ہے، اس میں ویب سائٹ پر جاری کی جانے والی رپورٹ کو اس حد تک تسلیم کر لیا گیا ہے کہ کمپنیوں اور اثاثوں کے حوالے سے معلومات درست ہیں، تاہم اس بات کی نفی کی گئی ہے کہ ان کا تعلق براہ راست جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں سے بنتا ہے۔
اس بات کو بھی غلط قرار دیا گیا ہے کہ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے آرمی کیرئیر میں ترقی کے ساتھ ساتھ ان کے خاندانی اثاثے بھی بڑھتے رہے، کیونکہ کاروبار تو ان کے امریکہ میں موجود بھائی پہلے سے کر رہے تھے، تاہم ایک دو جگہیں ایسی ہیں جہاں معاملہ تھوڑا الجھ جاتا ہے۔ انہوں نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ان کی اہلیہ امریکہ میں کاروبار سے یکم جون 2020ئ کو علیحدہ ہو گئی تھیں اور
اس کا وہاں باقاعدہ اندراج موجود ہے۔ ان کی سرمایہ کاری اس وقت 19ہزار ڈالرز تھی۔ یہ انیس ہزار ڈالرز کی رقم کہاں گئی؟ کیونکہ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے یہ اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کی۔ اپنے بیٹوں کے بارے میں بھی ان کا کہنا ہے کہ ان کی عمریں 28سے 33سال کے درمیان ہیں، وہ اپنے کاروبار اور اثاثوں کے مالک ہیں، ان کا کوئی لینا دینا نہیں، اب یہ وہ موقف ہے جو سابق وزیراعظم نوازشریف نے
بھی اختیار کیا تھا اور کہا تھا کہ فلیٹس حسن نواز اور حسین نواز کی ملکیت ہیں، مگر ان کی یہ بات نہیں مانی گئی تھی۔ اسی طرح جسٹس قاضی عیسیٰ فائز نے بھی بیرون ملک موجود جائیداد کو اپنی اہلیہ کی ملکیت قرار دیا تھا، لیکن ابھی تک ان کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ کیا یہ فارمولا جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ پر لاگو ہو گا کہ وہ اپنے بچوں کی منی ٹریل دیں اور یہ ثابت کریں کہ انہوں نے کاروبار اپنی
ذاتی کمائی سے شروع کیا اور دوگھر بھی اپنی کمائی سے خریدے۔جنرل (ر) عاصم باجوہ پر دباو¿ اس وقت بڑھا تھا جب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ رپورٹ میں جو الزامات لگائے گئے ہیں ان کی تحقیقات کرائی جائیں! انہوں نے نیب کو بھی معاملے میں گھسیٹا تھا کہ چھوٹے چھوٹے الزامات پر سیاستدانوں کے خلاف انکوائریاں کھولنے والا نیب جنرل (ر) عاصم باجوہ کے خلاف بھی
تحقیقات کرے۔ ان الزامات کی وجہ سے جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو سامنے آنا پڑا اور انہوں نے اس دعوے کے ساتھ کہ تمام ثبوتوں کی موجودگی میں وہ اس رپورٹ کو جھوٹ اور من گھڑت قراردے رہے ہیں، جس کا مقصد ان کے خاندانی وقار اور شاندار کیرئیر کو نقصان پہنچانا ہے، لیکن بات یہاں رکے گی نہیں، کیونکہ پہلے بھی جن بڑے لوگوں نے ایسے دعوے کئے، انہیں تسلیم نہیں کیا گیا اور ریاستی اداروں سے
ان دعوؤں کی جانچ پرکھ کرائی گئی۔ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ ایک باصلاحیت انسان ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر اور کمانڈر سدرن کمانڈ کی حیثیت سے ان کی کارکردگی لائقِ صد ستائش ہے۔ اپنی اس ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے بھی انہیں از خود شفاف اور بے لاگ انکوائری کی پیش کش کرنی چاہیے اور وہ تمام ثبوت اس کے سامنے رکھنے چاہئیں، جن کا ذکر انہوں نے اپنے وضاحتی بیان میں کیا ہے۔