ڈاکٹر ماہا نے خودکشی نہیں کی بلکہ انہیں قتل کیا جانے کا امکان‎‎

3  ستمبر‬‮  2020

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)ڈاکٹر ماہا علی کیس میں بڑا بریک تھرو، میڈیکل لیگل رپورٹ میں حیرت انگیز انکشافات سامنے آگئے ۔ تفصیلات کے مطابق میڈیکل لیگل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر ماہا علی رائٹ ہینڈڈ تھیں جبکہ انہیں گولی بائیں جانب سے سر میں لگی ہے ۔ لیگل رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر ماہا نے خودکشی نہیں کی بلکہ انہیں قتل کیا جانے کا امکان ہے ۔

قبر کشائی کے بعد میڈیکل لیگل رپورٹ کو مدنظررکھتے ہوئے ڈاکٹر ماہا علی کے گھر والوں کو شامل تفتیش کیا جا سکتا ہے ۔ دوسری جانب کراچی کی ایک مقامی عدالت نے ڈاکٹر ماہا کیس میں تفتیشی افسر کی جانب سے حتمی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروانے تک ایک ملزم کو ڈسچارج کردیا۔ابتدا میں پولیس نے کہا تھا کہ کلفٹن کے ایک نجی اسپتال میں کام کرنے والی نوجوان خاتون ڈاکٹر نے 18 اگست کو اپنے گھر میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔بعدازاں پولیس نے ان کے دوست جنید خان، وقاص حسن، ڈاکٹر عرفان قریشی اور دیگر 2 افراد کو قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمے میں نامزد کیا تھا۔جب یہ معاملہ جوڈیشل مجسٹریٹ (جنوبی) کے سامنے سماعت کے لیے آیا توتفتیشی افسر نے ڈاکٹر عرفان قریشی کا جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے انہیں پیش کیا۔تفتیشی افسر نے بتایا کہ دیگر 2 ملزمان وقاص حسن اور جنید خان ابھی تک مفرور ہیں اور مفروروں کا سراغ لگانے اور تفتیش مکمل کرنے کے لیے مزید وقت دینے کی استدعا کی۔ڈاکٹر عرفان قریشی کے وکیل صفائی نے عدالت میں ایک درخواست جمع کروائی جس میں ملزم کو عدم شواہد پر ڈسچارج کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔وکیل نے موقف اختیار کیا کہ شکایت کنندہ پیشے کے لحاظ نے دندان ساز اور ایک معزز شہری ہے۔وکیل نے دعویٰ کیا کہ شکایت کنندہ کو اسٹیشن ہاؤس افسر(ایس ایچ او)کی بدنیتی پر مبنی ارادوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا اور اس بات کا

کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا کہ متوفیہ کو زندگی ختم کرنے والا نشہ دیا گیا تھا۔درخواست میں کہا گیا کہ وقوعہ کے روز متوفیہ ڈاکٹر عرفان قریشی کے کلینک آئی تھیں اور 4 گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ان سے ملاقات کیے بغیر واپس چلی گئی تھیں اور اس سلسلے میں ان دونوں کے درمیان واٹس ایپ پر ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ موجود ہے۔وکیل صفائی نے مزید کہا کہ تفتیشی افسر کی پیش کردہ رپورٹ

اور ڈیتھ/ میڈیکل سرٹیفکیٹس میں بھی زندگی ختم کرنے والے کی قسم کے بارے کچھ نہیں کہا گیا۔وکیل صفائی نے موقف اختیار کیا کہ شکایت کنندہ نے کوئی جرم نہیں کیا، لہذا انہیں اس کیس سے ڈسچارج کرکے رہا کیا جائے۔تاہم سرکاری وکیل نے اس درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ شکایت کنندہ کو متوفیہ کے والد کے بیان پر گرفتار کیا گیا تھا اور ایک خون کے نمونے کی رپورٹ کا نتیجہ ابھی آنا باقی ہے۔

جس پر جج نے کہا کہ ‘اس وقت میرے سامنے ایسی کوئی چیز موجود نہیں جو شکایت کنندہ کو اس کیس سے منسلک کرے اور یہ کہ وہ یقینی طور پر مقدمے کا سامنا کریں گے’۔جج نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ ملزم کے خلاف لگائے گئے الزامات غلط ہیں، اور عرفان علی قریشی کو کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 63 کے تحت ڈسچارج کردیا اور انہیں 5 لاکھ روپے کے پی آر بونڈ جمع کروانے کی بھی ہدایت کی۔تاہم جج نے پروسیکیوشن کے لیے واضح کیا کہ انہیں ڈسچارج کیا گیا ہے جس کا مطلب ان کی بریت نہیں ہے کیوں کہ حتمی تفتیشی رپورٹ بھی عدالت کے سامنے پیش کی جانی ہے۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…