جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

اردن کے شاہ حسین کے حکم پرپاکستان نے فلسطینیوں پر کیا مظالم ڈھائے؟ جنرل ضیا الحق اور شاہد خاقان عباسی کے والد خاقان عباسی کا اس میں کیا کردار تھا؟ جاوید چوہدری کا حیران کن انکشاف

datetime 31  اگست‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، اینکر پرسن ، کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم ”پلیز مجھے بھی بتا دیں” میں لکھتے ہیں کہ فلسطینیوں کی چھ نسلیں جلاوطنیوں اور کیمپوں میں پیدا ہوئی ہیں یہ بے چارے گولیوں کی آواز میں آنکھیں کھولتے ہیں اور لاشوں

کے انبار میں آنکھیں بند کرتے ہیں اور 58 اسلامی ملکوں میں سے کسی ملک نے آج تک کھل کر ان کا ساتھ نہیں دیا کوئی کندھے سے کندھا ملا کر ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا سوائے ایران کے، ایران 42سال سے شیعہ فلسطینیوں شیعہ لبنانی اور شیعہ شامیوں کے ساتھ کھڑا ہے جب کہ باقی تمام ملکوں کی حمایت زبانی کلامی مذمتی اور قربانی کے گوشت تک محدود ہے۔عالم اسلام کو اگر واقعی فلسطینیوں کا احساس ہے تو پھر اس نے آج تک ان کے لیے کیا کیا؟ ہم پاکستانی بھی ایک طرف فلسطینیوں کی محبت میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کر رہے اور دوسری طرف ہم نے اردن کے شاہ حسین کے حکم پر1970 میں فلسطینیوں پر ٹینک بھی چڑھا دیے تھے اور ان پر طیاروں سے بمباری بھی کی تھی یہ خدمات جنرل ضیا الحق نے بریگیڈیئر کی حیثیت سے سرانجام دی تھیں جب کہ ائیرفورس کی طرف سے شاہد خاقان عباسی کے والد خاقان عباسی نے فلسطینیوں پر بمباری کی تھی۔یہ واقعہ آج بھی فلسطینیوں کی تاریخ میں بلیک ستمبر کہلاتا ہے اور اس کی وجہ سے جنرل ضیا الحق کے دور میں یاسر عرفات کے پاکستان سے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے ۔

پی ایل او کی قیادت اس دور میں ہمارے سفیروں تک سے ملاقات نہیں کرتی تھی دوسرا اسرائیل کے گرد22اسلامی ملک ہیں ان کی آبادی اسرائیل کی کل آبادی سے تیس گنا زیادہ ہے یہ عسکری قوت میں بھی کئی گنا بڑے ہیں لیکن آج تک ان 22 ملکوں نے اپنے بھائیوں کے لیے کیا کیا؟

فلسطینی 72 سال سے مر رہے ہیں اوربرادر اسلامی ملک ان کی لاشوں کے عوض امریکا اور یورپ سے مراعات لے رہے ہیں اوریہ برادر اسلامی ملک اپنی سفارتی اور سیاسی بارگیننگ کے لیے فلسطین کا ایشو سیٹل نہیں ہونے دے رہے یہ فلسطینیوں کو کیمپوں سے بھی باہر نہیں نکلنے دے رہے

ہم پاکستانی اگر واقعی فلسطین سے مخلص ہیں تو چلیے پھر ہم فلسطین کے لیے جہاد کرتے ہیں نکلیں 20 کروڑ پاکستانی اپنے گھروں سے اور چل پڑیں اسرائیل کی طرف۔ لیکن مجھے یقین ہے ہم اگر نکلے بھی تو ہمیں سب سے پہلے وہ مصر اردن شام اور لبنان روکے گا

جن کی زمینیں چھڑانے کے لیے ہم اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھیں گے اور پھر ہمیں سعودی عرب اور یو اے ای کی طرف سے واپسی کا حکم آ جائے گا۔مجھے آج تک اس محبت کی سمجھ بھی نہیں آئی جس میں ہم یہودیوں کی فیس بک ٹویٹر اور انسٹا گرام پر اسرائیل مردہ باد کی پوسٹ شیئر کرتے ہیں

اپنی سڑکیں بلاک کرتے ہیں اور اپنی گاڑیاں اور اپنی لائیٹس توڑتے ہیں اور نعرے لگا کر واپس آ جاتے ہیں اور پھر خواب دیکھتے ہیں فلسطینی ایک دن ضرور اپنے گھروں میں آباد ہوں گے فلسطینی یقینا ایک دن اپنے گھروں میں واپس جائیں گے لیکن اس میں عالم اسلام کا رتی برابر عمل نہیں ہو گا یہ صرف اور صرف فلسطینیوں کے خون اور پانچ

نسلوں کا نتیجہ ہو گا کیوں کہ قدرت ان شا اللہ ان کا خون رائیگاں نہیں جانے دے گی۔ہم پاکستانی بھی کیا دل چسپ قوم ہیں ہم نے فلسطینیوں کی محبت میں اسرائیل کو بھی تسلیم نہیں کیا اور ہم نے عملی طور پر بھی آج تک فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کیا آپ تاریخ نکال کر دکھا دیں

ہمارا کون سا صدر وزیراعظم یا وزیر آج تک فلسطین گیا یا ہم نے فلسطین کے لیے کون سی قربانی دی؟ ہم گھر بیٹھ کر فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں اور جب انہیں ہماری ضرورت پڑتی ہے تو ہم ان پر ٹینک چڑھا دیتے ہیں یہ ہے ہمارا کنٹری بیوشن اور دوسری طرف ہم جن

عربوں کے لیے مر رہے ہیں وہ کشمیر کے نام پر وضو تک کے لیے تیار نہیں ہیں۔ہم 2019 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں قرارداد جمع کرانے کے لیے بھی 16 برادر اسلامی ملکوں کی حمایت حاصل نہیں کر سکے تھے جب کہ بھارت کو جنرل اسمبلی کے غیر مستقل ممبر کے الیکشن میں 192میں سے 184ووٹ ملے اور یہ ریکارڈ ہے گویا

ہمارے سارے برادر اسلامی ملکوں نے ہماری درخواست کے باوجود ہمارے دشمن کو ووٹ دیے اوریہ ہے برادر اسلامی ملکوں میں ہماری اوقات مگر ہم اس کے باوجود اپنے منہ پر پڑنے والے چھتروں کو چھتر نہیں مانتے۔ہم انہیں بھی مقدس جوتا بنا دیتے ہیںدوسرا ہمارے پاس

جب دلیل ختم ہو جاتی ہے تو ہم سفارتی اور سیاسی ایشوز میں بھی اسلام ڈال دیتے ہیں اور اگر اسلام فٹ نہ ہو رہا ہو تو ہم اس میں علامہ اقبال اور قائداعظم ڈال کر دوسروں کو خاموش کر دیتے ہیں اور ہم یہ کارنامہ سرانجام دیتے وقت یہ تک بھول جاتے ہیں علامہ اقبال نے سانحہ جلیانوالہ باغ

کے باوجود سر کا خطاب قبول کر لیا تھا اور قائداعظم 1947 میں اس ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے پاکستان کے گورنر جنرل بنے تھے جس نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا تھا اور جس نے بعد ازاں اپنے ہاتھ سے اسرائیل کے قیام کی اجازت دی تھی لہذا یاد رکھیں لوگ ہوں یا قومیں یہ حالات میں زندہ رہتی ہیں جذبات اور ماضی کے قبرستانوں میں نہیںاور آپ اگر قوم ہیں تو پھر صرف پوسٹیں شیئر نہ کریں فلسطین کے لیے کھل کر لڑیں ۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…