اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی اور کالم نگار سلیم صافی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔کشمیریوں کی قربانی اور جدوجہد اپنی مثال آپ ہے۔ علی گیلانی سے لے کر میر واعظ عمر فاروق تک، کوئی بھی منزل سے سرمو منحرف نہیں ہوا لیکن پھر بھی کشمیریوں کو آزادی کی منزل نصیب نہیں ہوئی۔
غاصبانہ قبضہ توہندوستان نے 1947میں کیا تھا لیکن گزشتہ سال 5اگست کو مودی کی جنونی حکومت نے اسے ہڑپ کرنے کی بھی کوشش کی۔لاک ڈائون تو عملا ًمقبوضہ کشمیر میں برسوں سے ہو چکا تھا لیکن گزشتہ سال سے محاصرہ بھی کر لیا گیا۔ ایسا محاصرہ جو قریب کی تاریخ کا سب سے طویل محاصرہ ہے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی مالی اور سماجی حالت پاکستانیوں سے بہت بہتر تھی۔ ان کو ہندوستان کی مرکزی حکومت میں بھی مناصب دیے گئے اور مقبوضہ کشمیر کے اندر بھی۔ آج بھی اگر وہ آزادی کا نعرہ چھوڑنے پر آمادہ ہوں تو سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک وغیرہ کو مودی سرکار کوئی بھی منصب اور کوئی بھی لالچ دینے کو تیار ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان موجودہ دور میں ان کے لئے کیا کر سکتا ہے؟ پہلا راستہ یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کی آزادی کے لئے دھاوا بول دے لیکن ہمارے ملک کے حکمران اور محافظ ہمیں بتارہے ہیں کہ سردست ایسا ممکن نہیں کیونکہ ایک تو اقتصادی حالت پاکستان کو اس سے روکتی ہے اور دوسرا عالمی برادری اس وقت اس کی اجازت دے گی اور نہ پاکستان کا ساتھ۔دوسرا آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کو اخلاقی کے ساتھ عملی مدد بھی فراہم کی جائے لیکن نائن الیون کے بعد جو فضا بنی ہے اور انڈیا نے جس طرح کشمیریوں کی آزادی کی لڑائی کو دیگر عالمی تنظیموں سے جوڑ دیا ہے۔
اس کے بعد خصوصاً ایف اے ٹی ایف جیسے عوامل کی وجہ سے اس آپشن کو آزمانا ممکن نہیں رہا۔ تیسرا آپشن جو سردست دستیاب ہے وہ سفارتکاری کے ذریعے عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے، عالمی سطح پر دشمنوں کو کم کرنے اور دوستوں کی تعداد بڑھانے کا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت، اس کی موجودہ ٹیم اور اس کی افراط و تفریط پر مبنی پالیسیوں کے ساتھ ایسا ہونا ممکن نہیں۔عالمی سطح پر کشمیر کا مسئلہ زندہ ہوا ہے لیکن وہ ہمارا نہیں بلکہ قربانیاں دینے اور مظلومانہ جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کا کارنامہ ہے یا پھر خود جنونی مودی کی حکومت اور اس کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔